درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
روزئے خواہم بناگہ بے تَعَب کہ نہ دارم من زکوشِش جز طلب اے اللہ! ہم آپ سے اس چھوٹے بچے کی سی روزی مانگتے ہیں جو اچانک اور بے گمان وبے مشقت غیبی طور پر مل جائے کیوں کہ ہم کمزور و بے دست و پا ہیں، محنت و مشقت کے قابل نہیں اس لیے آپ سے مانگتے ہیں اور دُعا و طلب میں آہ و دل سوزی کرتے ہیں۔ لیکن ان اشعار کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مولانا رومی ہم کو دنیا سے ناکارہ، کاہل اور اپاہج بننے کی تعلیم دے رہے ہیں۔ مولانا کی مراد اس سے یہ ہے کہ اہل اللہ تفویض و توکُّل و فنائیت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوتے ہیں اور انہماک فی الدنیا نہ ہونے سے عوام ان کو کاہل سمجھتے ہیں جیسے بعض اہلِ دنیا بھی کاہل ہوتے ہیں۔ دونوں کی ظاہری حالت ایک سی معلوم ہوتی ہے لیکن اہلِ دنیا کی کاہلی اور اہلِ آخرت کی کاہلی میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ حکیمُ الامّت تھانوی رحمۃُاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اہلِ دنیا کی کاہلی نفس کی راحت پسندی اور آرام طلبی کے سبب ہوتی ہے اور اہل آخرت کی کاہلی اسباب دنیا میں انہماک نہ ہونے سے ہوتی ہے جس کا سبب تفویض و توکّل اور اپنے ارادوں کو مرضیاتِ الٰہیہ میں فنا کردینا ہے۔ اسی کو مولانا فرماتے ہیں ؎ کاہلی را کردہ اند ایشاں سَنَد کارِ ایشاں راچوں یزداں می کُنَد عارفین نے تفویض و توکّل کو جو بظاہر کاہلی نظر آتی ہے اپنا سہارا اس لیے بنالیا ہے کہ ان کے کام اللہ تعالیٰ کردیتے ہیں جیسا کہ حق تعالیٰ خود ارشاد فرماتے ہیںوَمَنْ یَّتَّقِ اللہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًاجو تقویٰ اختیار کرتا ہے اللہ اس کے کاموں میں آسانی فرمادیتے ہیں وَّیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَایَحْتَسِبُ؎ اور اس کو ایسی جگہ سے رزق دیتے ہیں جہاں سے اس کو گمان بھی نہیں ہوتا ؎ ------------------------------