درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
تقسیم ہے، مخلوق یا بحری ہوگی یا برّی ہوگی اب اگر کوئی کہے کہ پہاڑی مخلوق بھی تو ہے۔ تو پہاڑ بھی خشکی میں داخل ہیں۔ پس بحر و بر پر آپ ہی کی حکومت ہے اس لیے ہم کو دونوں جگہ عافیت سے رکھیے۔ کاہلم چوں آفریدی اے ملی روزیم دہ ہم ز راہِ کاہلی اے خُدا! جب آپ نے مجھے کاہل یعنی کمزور پیدا کیا ہے کہ دنیا کے کاموں میں میرا دل نہیں لگتا تو مجھ کو روزی بھی آسان راستے سے عطا فرمائیے۔ ہر کہ را پا ہست جوید روزئے ہرکہ را پانیست کن دل سوزئے مولانا رومی فرماتے ہیں کہ جس کو اللہ نے پاؤں دیے ہیں، قوّت و طاقت عطا فرمائی ہے وہ چل پھر کر تلاشِ روزی کرے اور جو بے دست و پا ہے وہ نالہ و فریاد میں دل سوزی کرے۔ چوں زمیں راپا نہ باشد جُودِ تو ابر را راند بسوئے اُودِ تو اے اللہ! جب آپ نے زمین کو پاؤں نہیں دیے تو آپ کا جود و کرم بادلوں کو مسخر کرکے وہاں بھیجتا ہے کہ جاؤ اس پیاسی زمین پر بارش برسادو ۔ طفل راچو پانباشد مادرش آید و ریزد وظیفہ برسرش جب دُودھ پیتا بچہ پاؤں سے چلنے کے قابل نہیں ہوتا، چل کر ماں کے پاس نہیں جاسکتا تو آپ کا کرم ماں کے دل میں ممتا اور شفقت کا جوش پیدا کرتا ہے اور ماں خود اس کے پاس آتی ہے اور اس کی خوراک اس کو پہنچاتی ہے یعنی اس کو دودھ پلاتی ہے ۔