درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
حضرت حکیمُ الامّت نے خواجہ صاحب کو ڈانٹا اور اگلے دن صبح خواجہ صاحب سے فرمایا کہ خواجہ صاحب! آپ میرے ساتھ ٹہلنے چلیں گے جب کہ حضرت سیر کے لیے کسی کو ساتھ نہیں لے جاتے تھے۔ یہ خواجہ صاحب کا خصوصی اکرام تھا۔ تو مولانا رومی فرماتے ہیں کہ شیخ کی ڈانٹ سے اگر تم پُر کینہ ہوجاؤ گے تو بغیر قلعی تمہارا دل کیسے آئینہ بنے گا ؎ آئینہ بنتا ہے رگڑے لاکھ جب کھاتا ہے دل کچھ نہ پوچھو دل بڑی مشکل سے بن پاتا ہے دل خوش سلامت مابہ ساحل بازبر اے رسیدہ دستِ تو دربحر و بر ارشاد فرمایا کہ جہاں دریا اورسمندر ختم ہوتا ہے اس کو ساحل کہتے ہیں یعنی کنارہ۔ مولانا دُعا فرمارہے ہیں کہ اے خُدا !ہم کو سلامتی کےساتھ ساحل تک پہنچادیجیے یعنی اپنے راستے میں نفس و شیطان کے طوفانوں سے بچاتے ہوئے ہماری کشتی کو عافیت وسلامتی کے ساتھ کنارے لگادیجیے تاکہ ہمارا خاتمہ ایمان پر ہوجائے اور ہماری کشتیٔ ایمان و تقویٰ پار ہوجائے اور آپ راضی ہوجائیں ؎ اے رسیدہ دستِ تو در بحر و بر اور یہ دوسرا مصرع موقعِ علّت میں ہے کہ یہ فریاد ہم آپ سے کیوں کرتے ہیں؟ کیوں کہ خشکی پر بھی حکومت آپ کی ہے اور دریا اور سمندر بھی آپ کے دستِ قدرت کے تحت ہیں۔ عربی میں یَدکے معنیٰ قدرت کے آتے ہیں جیسے بِیَدِہِ الْمُلْکُ کیوں کہ طاقت کااستعمال ہاتھوں سے زیادہ ہوتا ہے اس لیے عربی زبان میں طاقت کو یَد سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔ مولانا عرض کرتے ہیں کہ اے اللہ! آپ کا دستِ قدرت خشکی اور سمندر ہر جگہ پہنچا ہوا ہے، خشکی پر بھی آپ ہم کو سلامت رکھ سکتے ہیں اور دریا میں ڈوبی ہوئی کشتی کو بھی پار کرسکتے ہیں، بحر و بر آپ کے دستِ قدرت میں ہیں۔ دنیا دو حصّوں ہی میں