درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
ہوئی ہے اور مادّہ میں مشاہدۂ تجلّیاتِ الٰہیہ کا تحمل نہیں۔ اسی لیے سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ: تَفَکَّرُوْا فِی خَلْقِ اللہِ وَلَا تَتَفَکَّرُوْا فِی اللہِ فَاِنَّکُمْ لَمْ تَقْدِرُوْا قَدْرَہٗ؎ اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں غور کرو، اللہ کی ذات میں غور مت کرو کیوں کہ تم اس کا اندازہ نہیں کرسکتے کہ تمہاری عقل محدود اس ذاتِ غیر محدود کے احاطے سے قاصر ہے،فہمِ محدود میں ذاتِ غیرمحدود کا ادراک محال ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں غور کرو کیوں کہ تم بھی مخلوق ہو اور یہ عالم بھی مخلوق ہے اور مخلوق کی رسائی مخلوق تک ہوسکتی ہے کہ کائنات کے عجائبات کو دیکھ کر اور ان میں غور کرکے تم اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرسکتے ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی پہچان کرانے کے لیے یہ عالم پیدا فرمایا ہے۔ میرے شیخ شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃُاللہ علیہ فرماتے تھے کہ عالَم علم سے ہے جس کے معنیٰ ہیں نشانی۔ پس سارا عالَم ان کی نشانی ہے۔ اس عالَم کے ذرّہ ذرّہ میں اپنی نشانیاں بکھیر دیں کہ میری نشانیوں میں تم مجھ کو پاجاؤ۔ اسی کو مولانا اصغر گونڈوی فرماتے ہیں ؎ میرے سوالِ وصل پہ پیہم سُکُوت ہے بکھرادیے ہیں کچھ مہہ و انجم جواب میں یہ عالَم، عالمِ امتحا ن ہے اس لیے اپنی نشانیاں ظاہر فرمادیں اور ان نشانیوں کے پردے میں خود کو چھپادیا تاکہ امتحان باقی رہے اور اہلِ عقل اور اہلِ نظرا ن نشانیوں کو دیکھ کر ہم پر فدا ہوجائیں۔ مولانا اصغر گونڈوی فرماتے ہیں ؎ ردائے لالہ و گل پردہ مہہ و انجم جہاں جہاں وہ چُھپے ہیں عجیب عالم ہے یہاں حق تعالیٰ ہم سے ایمان بالغیب چاہتے ہیں۔ مولانا رومی حق تعالیٰ کی طرف سے حکایۃً فرماتے ہیں ؎ ------------------------------