درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
آفتاب آمد دلیلِ آفتاب گرد لیلت باید ازوے رو متاب آفتاب کا طلوع خود اس کے وجود کی دلیل ہے اگر کوئی نادان اس کے وجود کا انکار کرتا ہے اور دلیل طلب کرتا ہے تو اس کا چہرہ آفتاب کی طرف کردو اور کہو کہ اب اس سے اپنا منہ کیوں پھیرتا ہے۔ مولانا رومی فرماتے ہیں کہ ہمارے جسم کے اندر اور باہر کائنات میں اپنی اس قدر نشانیاں رکھ دی ہیں جو اظہرمن الشَّمس ہیں تاکہ کل قیامت کے دن کوئی یہ نہ کہہ سکے! یا اللہ! آپ پر ایمان بالغیب لانا بہت مشکل تھا۔ یہ ہیں مثنوی کے علوم جن پر ساری دنیا کے عُلماء وجد کرتے ہیں۔ اس کے بعد مولانا نصیحت فرماتے ہیں ؎ گر تو او رامی نہ بینی در نظر فہم کن اما بہ اظہارِ اثر اگر اس دنیا میں تم اللہ تعالیٰ کو اپنی ان آنکھوں سے نہیں دیکھتے ہو لیکن ان کی مخلوقات اور نشانیوں کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ کے وجود پر استدلال کرسکتے ہو کہ اس کی مصنوعات و آثار و نشانیاں سارے عالم میں پھیلی ہوئی ہیں ۔ کائنات کا ایک ایک ذرّہ، سمندروں کا ایک ایک قطرہ، درختوں کا ایک ایک پتّہ اللہ تعالیٰ کے وجود کی خبر دیتا ہے۔ اسی لیے ایمان والوں کی شان اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں یَتَفَکَّرُوۡنَ فِیۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؎ بیان فرمائی کہ ہمارے خاص بندے آسمانوں اور زمینوں میں تفکّر کرتے ہیں چوں کہ اس عالمِ ناسوت میں ہم اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھ سکتے کیوں کہ یہ عالم محدود ہے اور حق تعالیٰ کی ذاتِ غیر محدود ہے اور غیر محدود، محدود میں کیسے آسکتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ اس عالم میں اپنے آپ کو دکھادیں تو سارا عالم فنا ہوجائے کیوں کہ اس عالم کی تخلیق مادّہ سے ------------------------------