درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
مولانا فرماتے ہیں کہ ان مثالوں کے علاوہ دنیا میں اور بھی سینکڑوں نظائر موجود ہیں جہاں بغیر دیکھے محض آثار و علامات سے تم ان کا وجود تسلیم کرتے ہو مثلاً کہتے ہو کہ خُدا کی قسم! آج میرے دل میں بڑی خوشی ہے اور کبھی کہتے ہو کہ خُدا کی قسم!آج مجھے بڑا غصہ آرہا ہے، کبھی کہتے ہو کہ خُدا کی قسم! آج میرے دل میں بہت غم ہے اور کبھی کہتے ہو کہ فلاں شخص پر آج مجھے بہت رحم آرہا ہے۔ قسمیں اُٹھارہے ہو لیکن بتاؤ کہ کیا کسی نے کبھی خوشی دیکھی ہے کہ یہ ہوتی کیسی ہے، نیلی ہوتی ہے کہ پیلی ہوتی ہے اور غم کیسا ہوتا ہے اور کبھی غصے کو کسی نے دیکھا ہے کہ کس ہیئت اور کس شکل کا ہوتا ہے۔ محض علامات سے آنکھوں کے مشاہدے کے بغیر ان کے وجود پر ایمان لاتے ہو۔ چہرے کے تبسم سے دل کی خوشی اور چہرے کی افسردگی اور اشکبار آنکھوں سے غم کا وجود تسلیم کرتے ہو۔ اسی طرح حق تعالیٰ کے وجود پر خود تمہارا جسم شاہد ہے اور عالم کا ذرّہ ذرّہ اور پتّہ پتّہ زمین و آسمان، سورج اور چاند، دریا و پہاڑ، نجوم و سیارات، انقلابِ موسم و تصرفِ ریاح یعنی کرۂ ہوا میں غیبی تصرّف کہ ہزاروں میل کی رفتار سے ایک سمت کو چلتی ہوئی ہوا کے رُخ کا آن واحد میں دوسری سمت کو ہوجانا اور کروڑوں ٹن پانی کا بادلوں کے کندھوں پر فضا میں معلّق ہونا اور ماہرینِ موسم کے اندازوں کے خلاف بادلوں کا ایسے مقامات پر برسنا جہاں بارش کا احتمال بھی نہیں ہوتا کیا یہ سب نشانیاں حق تعالیٰ کے وجود پر دلالت نہیں کرتیں۔ مولانا فرماتے ہیں کہ دنیا میں ہزاروں مخفی موجودات پر محض ان کے آثار و علامات سے ایمان بالغیب لانے والو! آہ اللہ پر ایمان لانے میں تمہاری عقل کہاں چلی جاتی ہے جب کہ سارے عالم میں ان کی نشانیاں اس طرح روشن ہیں جیسے آفتاب پر اس کی روشنی دلیل ہے۔ فرماتے ہیں ؎ خود نباشد آفتابے را دلیل جز کہ نورِ آفتابِ مستطیل آسمان پر چمکتے ہوئے آفتاب کے وجود پر خود اس کی روشنی دلیل ہے۔