درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
طرح روح جو محرک ہے اجسام کی اس کا جسم میں موجود ہونا اور خارج میں زمین و آسمان، شمس و قمر، سیارات و نجوم، سمندر اور دریا ، انقلاباتِ موسم، لاکھوں ٹن پانی لے کر شرقاً، غرباً، شمالاً، جنوباً چلنے والی ہوائیں غرض پوری گردشِ کائنات دلیل ہے کہ اس متحرک کا محرک حق تعالیٰ شانہ‘ کی ذات ہے جن کے وجود پر بغیر دیکھے ایمان لانا عقلاً ثابت ہوگیا۔ اس کے بعد مولانا ایمان بالغیب کے ثبوت کے لیے ایک اور استدلال پیش کرتے ہیں کہ ؎ تیر پیدا بیں و ناپیدا کماں جان ہا پیدا و پنہاں جانِ جاں اسی طرح اُڑتا ہوا تیر دیکھتے ہو اور کمان نظر نہیں آتی لیکن بغیر دیکھے کمان کے وجود کو تسلیم کرلیتے ہو کیوں کہ عقل فیصلہ کرتی ہے کہ تیر کمان ہی سے اُڑتا ہے، بغیر کما ن کے خود نہیں اُڑسکتا۔ اسی طرح جسم کی حرکت سے جان کا وجود تو ظاہر ہے کیوں کہ جان ہی جسم کی محرک ہے۔ اگر روح نہ ہو تو جسم حرکت نہیں کرسکتا لیکن جان کے اندر ایک جانِ جاناں پنہاں ہے جس کی برکت سے جان میں حیات ہے لہٰذا روح کا وجود روح الارواح کے مخفی وجود پر دلالت کرتا ہے چناں چہ جب اس خالق الارواح کا حکم ہوجاتا ہےتو روح جسم سے نکل جاتی ہے اور جسم بے جان ہوجاتا ہے۔ مولانا رومی ایمان بالغیب کی ایک اور نظیر پیش کرتے ہیں کہ ؎ بُوئے گل دیدی کہ آنجا گُل نبود جوش مل دیدی کہ آنجا مُل نبود اے لوگو! کیا تم نے پھول کی خوشبو کہیں ایسی جگہ سونگھی کہ جہاں پھول ہی موجود نہ ہو اور جوشِ شراب کہیں دیکھا جہاں شراب ہی موجود نہ ہو۔ پس تم پھول کی خوشبو سے پھول کے وجود پر بغیر دیکھے دلیل قائم کرتے ہو اور کسی کو جوشِ شراب اور نشے میں دیکھ کر بغیر دیکھے شراب کے وجود پر یقین کرلیتے ہو۔