درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
تن بجاں جنبد نمی بینی تو جاں لیک از جنبیدنِ تن جاں بداں جسم جان کی وجہ سے حرکت کرتا رہے مگر تم جان کو نہیں دیکھتے ہو لیکن جسم کی حرکت کو دیکھ کر بغیر دیکھے جان کے وجود کو تسلیم کرتے ہو۔ اگر بغیر دیکھے کسی چیز کا تسلیم کرنا خلافِ عقل ہے تو دیکھے بغیر جان کے وجود کو بھی تسلیم نہ کرو۔ اسکول کے ایک دہریہ استاد نے ایک بچے سے کہا کہ جس چیز کو ہم دیکھتے ہیں اس کو تسلیم کرتے ہیں، بغیر دیکھے کسی چیز کے وجود کو ماننا حماقت ہے لہٰذا جو لوگ بغیر دیکھے اللہ کے وجود کو تسلیم کرتے ہیں، احمق ہیں۔ وہ بچہ کسی اللہ والے کا تھا۔ اس نے کہا ماسٹر جی! آپ یہ کیا بات کررہے ہیں۔ اگر آپ کی بات کو میں صحیح مان لوں تو مجھے آپ کو بے عقل کہنا پڑے گا کیوں کہ آپ کی عقل تو مجھے نظر نہیں آتی۔ ماسٹر جی اپنا سا منہ لے کے رہ گئے۔ ایک شخص نے حکیمُ الامّت سے کہا کہ ہم اللہ سے کیسے محبت کریں کیوں کہ اللہ تو نظر نہیں آتا۔ حضرت نے فرمایا کہ تم کو اپنی جان سے محبت ہے یا نہیں؟ اگر کوئی ڈاکو تمہاری جان نکالنے آجائے تو اس سے لڑو گے یا آسانی سے کہہ دو گے کہ یہ جان حاضر ہے لے جا؟ کہا کہ نہیں صاحب! جان بچانے کے لیے جان لڑادوں گا۔ فرمایا کہ جان کو کبھی دیکھا بھی ہے؟ کہا کبھی نہیں دیکھا۔ فرمایا! جیسے بغیر دیکھے جان سے محبت کرتے ہو تو بغیر دیکھے اللہ سے محبت کیوں نہیں کرسکتے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے جسم میں روح عطا فرماکر ایمان بالغیب کی ایک دلیل خود ہمارے اندر رکھ دی کہ جس طرح اپنی جان پر ایمان بالغیب لاتے ہواور بغیر دیکھے اپنی جان کو تسلیم کرتے ہو اور اس سے اتنی محبت کرتے ہو کہ جان کی حفاظت میں جان لڑادیتے ہو، اسی طرح بغیر دیکھے اللہ پر ایمان لانا اور اللہ سے محبت کرنا کیا مشکل ہے۔ ہمارے اندر یہ دلیل رکھ کر اللہ تعالیٰ نے ایمان بالغیب کا پرچہ آسان کردیا اور گنجایشِ انکار باقی نہ رکھی۔ اکبر الٰہ آبادی نے کیا خوب کہا ہے ؎