درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
لیے ہوئے ہیں کہ ان کی لذّتِ قُرب اہلِ ظاہر کی عقلِ نارسا و فہم وادراک سے بالا تر ہے بلکہ ہر عاشق کی نسبت مع اللہ کا رنگ الگ ہے، ہر عاشق کی آہ الگ ہے، ہر ولی کو ایک شانِ تفرّد حاصل ہے لہٰذا ایک ولی بھی دوسرے ولی کی باطنی لذّت اور اس کے قُرب کی تفصیلاتِ کیف سے بے خبر ہوتا ہے۔ اجمالاً ایک دوسرے کے صاحبِ نسبت ہونے کا تو علم ہوتا ہے لیکن اس کے باطن کو کیا لذّتِ قُرب حاصل ہے وہ ایک دوسرے پر مخفی ہوتی ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ اپنے محبت کی لذّت ہر ایک کو الگ الگ دیتے ہیں اور ایک دوسرے سے چُھپاکر دیتے ہیں۔ قرانِ پاک میں ارشاد ہے: فَلَا تَعۡلَمُ نَفۡسٌ مَّاۤ اُخۡفِیَ لَہُمۡ مِّنۡ قُرَّۃِ اَعۡیُنٍ؎ نکرہ تحت النفی ہے جو فائدہ عموم کا دیتا ہے یعنی کوئی نہیں جانتا جو آنکھوں کی ٹھنڈک ہم مخفی طور پر اپنے بندوں کو عطا فرماتے ہیں ۔ اس کی ایک مثال اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا فرمائی کہ جس طرح ماں اپنے بچے کو دودھ دیتی ہے تو دودھ کی شیشی پر کپڑا لپیٹ دیتی ہے تاکہ اس کے پیارے بچوں کی نظر اس کے پیارے بچے کو نہ لگ جائے اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی اپنے پیاروں کو اپنے قُرب کی لذّت چھپاکر دیتے ہیں تاکہ ان کے پیاروں کی نظر ان کے پیاروں کو نہ لگ جائے، ایک ولی کی نظر دوسرے ولی کو نہ لگ جائے۔ اس لیے ایک ولی کی باطنی کیفیات کی تفصیلات کا علم دوسرے ولی کو بھی نہیں ہوتا۔ عبد و معبود کے درمیان یہ اتصال و ربطِ خفی ایک سربستہ راز ہوتا ہے جو دوسرے بندے پر پوشیدہ ہوتا ہے جس کو خواجہ صاحب نے یوں تعبیر فرمایا ہے ؎ ہم تم ہی بس آگاہ ہیں اس ربطِ خفی سے معلوم کسی اور کو یہ راز نہیں ہے لیکن اہل دنیا کی سمجھ میں یہ باتیں نہیں آتیں۔ وہ تو ہمیں دیوانہ ہی کہیں گے کہ دیکھو ان مولویوں کو اور داڑھی والوں کو کہ اللہ کو دیکھا نہیں اور اللہ پر فدا ہورہے ہیں۔ اس کا جواب مولانا رومی ارشاد فرماتے ہیں ؎ ------------------------------