درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
اور میرے شیخ شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃُاللہ علیہ اس موقع پر یہ شعر بھی پڑھا کرتے تھے ؎ نہ کبھی تھے بادہ پرست ہم نہ ہمیں یہ ذوقِ شراب ہے لبِ یار چوسے تھے خواب میں وہی ذوقِ مستی خواب ہے یعنی بوقتِ آفرینش اللہ تعالیٰ نے اَلَسۡتُ بِرَبِّکُمۡ فرماکر ہماری ارواح کو اپنی شانِ ربوبیت کی تجلّی دکھادی اور ہمارے خمیر میں اپنی محبّت کی تخم ریزی فرما دی یعنی ہمارے مضغۂ دل پر اپنی محبّت کی چوٹ لگاکر پھر اس دنیا میں بھیجا کہ جا تو رہے ہو لیکن ہمارے بن کر رہنا ؎ کہیں کون و مکاں میں جو نہ رکھی جاسکی اے دل غضب دیکھا وہ چنگاری مری مٹی میں شامل کی یہ اسی چوٹ کا اثر ہے جو آج ہم ان کی محبت میں مست ہیں۔ اللہ کے نام میں جو شیرینی وکیف و مستی ہے دونوں جہاں کی لذتیں اس کے سامنے ہیچ ہیں۔ جن کو یہ حلاوتِ ذکر نصیب ہوگئی ان سے پوچھو کہ ان کے نام میں کیسا مزہ ہے۔ اللہ کی محبت میں اگر مزہ نہ ہوتا تو انبیاء علیہمُ السّلام کے سر نہ کٹتے اور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نہ فرماتے کہ ثُمَّ اُقْتَلُ ثُمَّ اُحْیٰی ثُمَّ اُقْتَلُ ثُمَّ اُحْیٰی ثُمَّ اُقْتَلُ؎ اے اللہ! میں محبوب رکھتا ہوں کہ میں آپ کی راہ میں قتل کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں، پھر قتل کیا جاؤں۔ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اتنے پیارے ہیں کہ جب ان کا عشق خونیں چلّہ اپنی کمان پر چڑھاتا ہے تو ہزاروں سر ایک پیسے کے عوض فروخت ہوجاتے ہیں ؎ صد ہزاراں سر بہ پولے آں زماں عشقِ خونیں چوں کند زہ بر کماں جہاں وہ پاؤں رکھتا ہے وہاں پر سر برستے ہیں لیکن اہلِ دنیا اللہ کے نام کی لذّت کو اور ان کی محبت کے مزے کو سمجھنے سے بھی قاصر ہیں۔ ان کے دیوانے جو بظاہر مُفلس و قلاش نظر آتے ہیں اپنے سینوں میں ایسی دولت ------------------------------