درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
اور کیانشہ ہے جس سے اہل اللہ کی جانیں جو شہبازِ معنوی ہیں ہر لمحہ ایسی مست ہیں کہ ان کی مستی و کیف و خوشی بیان کرنے سے سارے جہاں کی زبانیں قاصر ہیں ؎ وہ کرگس جو کسی مردہ پہ ہوتا ہے فدا اخؔتر وہ کیا جانے کہ کیا رُتبے ہیں اُن کے شاہبازوں کے جدھر دیکھو فدا ہے عشقِ فانی حُسنِ فانی پر فدا اللہ پر ہیں قلب و جاں اللہ والوں کے لہٰذا اللہ کی طرف اُڑنے کی کوشش کرو جس کے پاس جانا ہے اور ایک دن جس کو منہ دکھانا ہے، بس ایک لمحہ ان کو ناراض نہ کرو، کبھی خطا ہوجائے تو رو رو کر مُعافی مانگ لو۔ اللہ کی طرف ایک دم اُڑنے کا یعنی ولی اللہ بننے کا اس سے آسان نسخہ کوئی اور نہیں۔ خانقاہ اسی کا نام ہے ؎ یہ وہ چمن ہے جہاں طائرانِ بے پَر وبال بسوئے عرش بیک دم اُڑائے جاتے ہیں ما اگر قلاش و گر دیوانہ ایم مستِ آں ساقی و آں پیمانہ ایم ارشاد فرمایا کہ قلّاش کہتے ہیں تہی دست، غریب اور مسکین کو۔ مولانا رومی فرماتے ہیں کہ میں اگرچہ قلاش و مسکین و تہی دست ہوں لیکن اس ساقیٔ الست کی شرابِ محبّت سے مست ہوں اور اس کے پیمانۂ محبت پر فدا ہوں جس نے عالمِ ازل میں اَلَسۡتُ بِرَبِّکُمۡ فرماکر اپنی محبّت کی چوٹ دلوں پر لگادی تھی اور اپنی شرابِ محبّت ارواح کو پلادی تھی۔ یہ وہی چوٹ لگی ہوئی ہے اور اسی شرابِ محبت کی مستی ہے کہ بغیر دیکھے ہوئے بندے اللہ پر فدا ہورہے ہیں۔ اسی کو خواجہ صاحب فرماتے ہیں ؎ دل ازل سے تھا کوئی آج کا شیدائی ہے تھی جو اک چوٹ پرانی وہ اُبھر آئی ہے