درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
بھول جانا دلیل ہے کہ یہ شخص مٹی میں پھنسا ہوا ہے۔ جن کی قسمت میں اللہ تعالیٰ کی طرف پرواز مقدر ہے وہ زمین پر رہتےہوئے زمین پر نہیں رہتے، ان کی نگاہیں مثل پرندے کے آسمان کی طرف لگی رہتی ہیں، ہر وقت منتظر ہیں کہ کب موقع ملے اور کب میں اللہ کی طرف اُڑ جاؤں۔ مرتبۂ جسم میں وہ زمین پر نظر آتے ہیں مرتبۂ روح میں وہ ہر وقت عرشِ اعظم پر ہیں۔ مولانا فرماتے ہیں ؎ ظِلّ او اندر زمیں چوں کوہِ قاف روحِ او سیمرغ بس عالی طواف اللہ والوں کا جسم مثل پہاڑ کے زمین پر نظرآتا ہے لیکن ان کی روح ہر وقت عرشِ اعظم کا طواف کرتی ہے، ہر وقت قُربِ خاص سے مشرف رہتی ہے، کسی وقت وہ اللہ سے غافل نہیں ہوتے ؎ خامش اند و نعرۂ تکرارِ شاں می رود تا یار و تختِ یارِ شاں وہ خاموش بیٹھے ہیں لیکن ان کے باطن کے نعرہ ہائے عشق عرشِ اعظم اور مالکِ عرشِ اعظم تک پہنچ رہے ہیں۔ اسی حقیقت پر میرا شعر ہے ؎ زمین پر ہیں مگر کیا رابطہ ہے عرشِ اعظم سے نہیں آتے نظر لیکن پرِ پرواز آہوں کے وہ سب کے ساتھ رہ کر بھی خُدا کے ساتھ رہتے ہیں مگر کچھ اہلِ دل ہی آشنا ہیں ایسے رازوں کے اس کے برعکس جو لوگ مثلِ جانور کے ہیں وہ اللہ کو فراموش کرکے زمین کی چیزوں سے اور مٹی کے جسموں کی حرام لذتوں اور حرام خوشیوں سے مست ہیں۔ مُردہ لاشوں کی بدبو سے مست ہونے والے کیاجانیں کہ زندہ حقیقی کے نامِ پاک میں کیا خوشبو، کیا لذّت