درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
شریف میں مؤمن کی شان یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ ایک سوراخ سے دوبارہ نہیں ڈسا جاتا۔ جب حسینوں سے، بدنظری سے، نافرمانی سے بے چینی ہی پائی ہے تو اس بے چینی پیدا کرنے والے سوراخ میں دوبارہ انگلی مت ڈالو۔ یہ حسین سب مٹی ہیں، مٹی کے نقش و نگار ہیں، مٹی کے رنگ و روغن ہیں، مٹیوں کو بہت دیکھ چکے اب خالقِ ارض و سماء سے دل لگاکر دیکھو، ان کے راستے کا غم اُٹھاکر دیکھو اگر دونوں جہان کی لذتوں سے بڑھ کر مزہ دل میں نہ پاؤ تو کہنا کہ اخؔتر کیا کہہ رہا تھا۔ وہ کریم مالک ہے جو ایک پھول کے بدلے میں گلستان دیتا ہے۔ اپنی خوشیوں کا ایک پھول ان پر فدا کردو تو اپنے قُرب کا گلستان برسادے گا، لہٰذا اللہ کی دولتِ قُرب کو لوٹ لو اور دیر مت کرو ورنہ ایک دن عمل کا زمانہ ختم ہوجائے گا۔ جب آنکھ بند ہوئی اور قلب کی حرکت فیل ہوئی اس دن کچھ نہ کرسکو گے۔ اگر اب نہیں تو پھر کب وقت آئے گا ان پر فدا ہونے کا، کیا کوئی یقین دہانی اور گارنٹی ہے کہ کب تک جیو گے ؎ نہ جانے بُلالے پیا کس گھڑی تو رہ جائے تکتی کھڑی کی کھڑی ہمچو فرخے میلِ اُوسُوئے سُما منتظر بنہادہ دیدہ بر ہوا ارشاد فرمایا کہ مولانا جلال الدین رومی رحمۃُاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک پرندے کا بچہ آج ہی پیدا ہوا ہے، پر بھی ابھی نہیں آئے، صرف بازو ہیں ابھی اُڑ نہیں سکتا مگر اس کی نظر آسمان کی طرف رہتی ہے کیوں کہ مستقبل میں اس کی قسمت میں اُڑنا ہے اس لیے وہ آسمان کی طرف دیکھتا رہتا ہے اور جتنے جانور ہیں سب نیچے دیکھتے ہیں۔ گائے، بیل وغیرہ جب پیدا ہوتے ہیں تو زمین کی طرف دیکھتے ہیں اور جب بُڈھے ہوجاتے ہیں تب بھی زمین ہی کی طرف دیکھتے ہیں کیوں کہ ان کی قسمت میں پرواز نہیں ہے تو جانور مت بنو کہ ہر وقت مٹی کی چیزوں کو ڈھونڈ رہے ہو، ہر وقت حسینوں کو تلاش کررہے ہو، مٹی کے اجسام پر فدا ہورہے ہو، زمین کی چیزوں سے مست رہنا اور خُدا کو