درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
کے دل کو خوش کیا ہوا ہے کیوں کہ وہ مالک ارحم الراحمین ہے۔ ناممکن ہے کہ کوئی بندہ اللہ کو خوش کرے اور اللہ اس کو خوش نہ کرے ، ناممکن ہے کہ کوئی بیٹا ابا کو خوش کرے اور ابا اس کو خوش نہ رکھے، جب مخلوق کا یہ حال ہے تو اللہ تعالیٰ کی شان کیا ہوگی۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ والوں کے پاس بیٹھ کے دیکھ لو۔ اگر بے چین دل لے کر جاؤ گے تو چین و سکون لے کر اُٹھو گے۔ جب فریج میں یہ شان ہوسکتی ہے کہ اس میں گرم بوتل رکھ دو تو ٹھنڈا کردیتا ہے تو اللہ والوں کےقلب میں یہ اثر نہ ہوگا کہ بے چین دل ان کے پاس آکر سکون پاجائیں؟ اس کے برعکس جن ظالموں نے نافرمانی کی اور حرام خوشیوں سے اپنے نفس کو خوش کیا ہوا ہے، حسینوں پر بدنظری کرکے اپنے دل میں حرام مزوں کا اسٹاک کیا ہوا ہے ان کے دل کی بے چینی کا مشاہدہ ان کے پاس بیٹھ کر کرلو کہ اگر تم بھی بے چین نہ ہوجاؤ تو کہنا۔ اس پر میرا قطعہ سُنو جس میں اس اشکال کا جواب ہے اور جو مولانا رومی کے مذکورہ شعر کی بہترین شرح بھی ہے ؎ دُشمنوں کو عیشِ آب و گِل دیا دوستوں کو اپنا دردِ دل دیا دُشمنوں کو آب و گِل یعنی پانی اور مٹی کے کباب اور مٹی کی بریانی اور مٹی کی عورتیں اور عیاشیاں دے دیں کہ جتنی کرسکتے ہو کرلو لیکن دوستوں کو اپنا دردِ محبت عطا فرمایا۔ دُشمنوں کو آب و گِل اور دوستوں کو دردِدل عطا فرمایا لیکن دونوں میں فرق کیا ہے؟ ؎ اُن کو ساحل پر بھی طغیانی ملی ہم کو طُوفانوں میں بھی ساحل دیا وہ ایئرکنڈیشنوں میں خودکشی کررہے ہیں اور اولیاء اللہ غموں کے طوفان میں ساحل کا سکون رکھتے ہیں، کیوں کہ ان کے قلب کو سکینہ حاصل ہے اس لیے کسی ولی اللہ نے کبھی خودکشی نہیں کی۔ تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں کہ کسی ولی نے خودکشی کی ہو۔ ولی اللہ تو درکنار ان کے غلاموں نے بھی کبھی خودکشی نہیں کی۔ بس آخر میں اپنے نفس سے بھی اور آپ سب سےبھی کہتا ہوں کہ حدیث