درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
آؤ دیارِ دار سے ہو کر گزر چلیں سنتے ہیں اُس طرف سے مسافت رہے گی کم یعنی اپنے نفس کی خواہشات کو دار پر چڑھادو آپ بہت جلد اللہ کو پاجائیں گے۔اور آپ کے قلب کی خوشی کے عالم کا و ہ عالم ہوگا کہ سارا عالم آپ کے قلب کے اس عالم کو جان بھی نہیں سکتا۔ ایک لاکھ حج و عُمرہ کا ثواب سر آنکھوں پر لیکن ایک نظر بچانے کی لذّتِ قُرب کو نہیں پہنچ سکتا۔ اسی لیے میں کہتا ہوں کہ آج کے زمانے میں جو نظر بچالے وہ ولی اللہ ہوجائے گا، بس فرض، واجب، سُنتِ مؤکدہ نہ چھوڑے کیوں کہ فرض، واجب اور سُنّتِ مؤکدہ ہمارے ایمان واسلام کا اسٹرکچر ہے، جب اسٹرکچر ہی نہیں رہے گا تو فنشنگ کہاں کرو گے؟ حفاظتِ نظر کی فنشنگ سے آپ کا ایمان چمک جائے گا۔ اس غم سے آپ غرق فی النّور ہوجائیں گے اور دل میں اللہ کی محبت کا اتنا درد پیدا ہوگا او رآپ کے جلے بُھنے دل سے ایسی خوشبو آئے گی کہ آپ کے ذریعہ سے لاکھوں انسان ولی اللہ بن جائیں گے۔ لہٰذا یاد رکھو جب کوئی حسین سامنے آجائے تو اس کے بڑھاپے کا خیال کرکے آنکھ بند کرکے سوچو کہ اس کی عمر نوّے سال کی ہوگئی اور اس معشوق یا معشوقہ کی کمر جھکی ہوئی، آنکھوں پر بارہ نمبر کا چشمہ لگا ہوا، عورت ہے تو سمجھ لو کہ اس کے پستان ایک ایک فٹ نیچے لٹکے ہوئے ہیں، منہ کے دانت بھی سب باہر آچکے ہیں، پائریا الگ ہے، سارے بال سفید ہوگئے ہیں ، چوٹیاں جھڑگئیں بس تھوڑے سے بال رہ گئے مثل بڈھے گدھے کی دُم کے۔ یہ مراقبہ ہے، یہ قوتِ متخیلہ اللہ نے ہمیں کیوں دی ہے؟ تاکہ میرے بندے میری فرماں برداری میں اس کو استعمال کریں۔ یہ تھوڑی کہ عورتوں کے خیال سے معشوقوں کے خیال سے قوتِ متخیلہ کو پلید کیا جارہا ہے۔ بس جس کی جوانی آپ کو فتنے میں ڈال دے فوراً اس کا بڑھاپا سوچو لیکن نظر بچاکر۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ دیکھتے ہوئے سوچنے سے آپ کی سوچ کا سوئچ ہی خراب ہوجائے اور ایسی ظلمت چھا جائے کہ دنیائے عشقِ مجازی کے آخری اسٹیشن کی گندگیاں نظر ہی نہ آئیں اور مقدس داڑھیوں اور گول ٹوپیوں کے ساتھ ان گندے مقامات میں گر کر ذلّت و خواری کی انتہا کو پہنچ جائیں۔ نظر