درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
ہوگا۔ ایک بدنظری کرنے والے نے بتایا کہ میں نے ڈش انٹینا دیکھ لیا، ننگی فلم تھی اور دیکھنے والا سیّد زادہ تھا اس نے کہا کہ چھ ماہ ہوگئے لیکن جب سجدہ کرتا ہوں تو اسی ننگی عورت کی شرمگاہ پر میرا سر ہوتا ہے۔سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی زبان سے کہتا ہوں مگر سر وہیں ہوتا ہے، کیوں کہ دماغ سے کسی وقت اس کا دھیان نہیں نکلتا۔ بتائیے: بدنظری کراکے شیطان نے سجدہ کہاں کرادیا، جو سر خُدا کے حضور سے مشرف ہوتا اس کو کتنی گندی جگہ پر ذلیل کردیا۔ پس اب خود فیصلہ کرلیجیے کہ اللہ کے راستے میں ذرا سا غم اُٹھاکر وہ کیف وہ مستی بہتر ہے جو اللہ تعالیٰ انبیاء اور اولیاء کو عطا فرماتا ہے جس کے بعد غم کے قید خانے کی صعوبتیں بھی لذیذ ہوجاتی ہیں یا خُدا کے قہر و عذاب کی یہ لعنتی مستی بہتر ہے جس کے بعد تڑپنا، بے چین رہنا اور اللہ کے عذاب میں گرفتار رہنا نصیب ہوتا ہے اور دل بھی ایسے شخص کا لعنتی ہوجاتا ہے۔ جب آنکھ لعنتی کام کرے گی تودل کہاں سے جنتی ہوگا۔ عمل کرکے تو دیکھو یہ راستہ خالی علوم کا نہیں ہے، یہ خالی معلومات کا راستہ نہیں ہے عمل کرکے دیکھو۔لاکھ ہم تعریف کریں کہ مُرغی کی یخنی پیو، بہت طاقتور ہے اور کوئی مُرغی کے سوپ یعنی یخنی کا طریقہ بتارہا ہے او رسب لوگ لکھ رہے ہیں مگر فائدہ کسی کو نہیں ہوگا جو پیے گا اسی کو فائدہ ہوگا۔ ملفوظات نوٹ کرنے سے کام نہیں بنتا۔ اللہ کے نام کا غم اُٹھاکر دیکھو کہ کیا ملتا ہے؟ اللہ کے دوستوں کے غم اور مُجاہدے کی تعریفیں کرتے رہو اور خود غم نہ اُٹھاؤ، جب موقع آئے لومڑی بن جاؤ اور پاگل کی طرح دیکھنے لگو، اس وقت معلوم ہی نہیں ہوتا کہ یہ شخص کبھی اللہ اللہ بھی کررہا تھا، کبھی یہ شخص اہل اللہ کی صحبت میں رہا تھا لہٰذا ان مرنے والی لاشوں کے ڈسٹمپر کی خاطر خلافِ پیغمبر کام مت کرو، کمینہ پن کی کوئی حد ہوتی ہے، جن کے بال سفید ہوگئے ہیں ان کو تو زیادہ ہوشیار رہنا چاہیے۔ آئینہ میں اپنی داڑھی دیکھو اور اپنے نفس سے کہو کہ اے کمینے نفس! تو گُناہ کرتے کرتے بڈھا ہوگیا، بتا کیا تیرے پاس حرام مزے کا کوئی اسٹاک ہے، کیا حرام مزے کا کوئی ذرّہ باقی ہے۔ حرام کا مزہ حلال کا سکون بھی چھین لیتا ہے لہٰذا بہت بڑا نسخہ بتارہا ہوں جلد ولی اللہ بننے کا کہ فرض، واجب اور سُنّتِ مؤکدہ ادا کرلو اور نظر بچاکر گناہوں سے بچ کر دل کا خون کرلو۔ یہ بہت مختصر راستہ ہے اللہ کا دوست بننے کا۔ اسی کو ایک شاعر کہتا ہے ؎