درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
دور ہی سے یہ کہہ الٰہی خیر وَقِنَا رَبَّنَا عَذَابَ النَّارِ نامحرم عورتوں یا حسین لڑکوں کے لال لال گال جہنم کی آگ ہیں یااللہ! ہمیں جہنم کی آگ سے بچا کیوں کہ ان کے گال بھی لال ہیں اور دوزخ کی آگ بھی لال ہے لہٰذا یہ لال گال لال آگ تک پہنچانے والے ہیں۔ اس لیے خواجہ صاحب فرماتے ہیں کہ ان کو نہ دیکھو اور پناہ مانگو۔ جو لوگ نظر کی حفاظت نہیں کرتے ساری عمر کے حج اور عمرے، تبلیغ کے اور خانقاہوں کے چلّے، ذکر و اذکار اور تلاوت اور رات بھر تہجد کے سجدے سب ضایع ہوجاتے ہیں کیوں کہ عبادت کے نور کو گُناہوں کی ظلمت کھا جاتی ہے۔ عام لوگ کہتے ہیں کہ بھئی! ہم نے نہ لیا نہ دیا صرف دیکھ لیا اور آپ اتنا شور مچارہے ہیں۔ ارے بھئی! ہم شور نہیں مچاتے قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ کا حکم ہے: یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِہِمْ؎ اے ایمان والو!نظر کو نیچی کرلو اگر بدنظری میں نقصان نہ ہوتا تو بھلا اللہ پاک منع فرماتے؟ کیا کوئی ابّا مفید چیز سے اپنے بچوں کو منع کرےگا؟ اللہ پاک تو ارحم الراحمین ہیں۔ بھلا ارحم الراحمین ہم کو مفید چیزوں سے منع کرے گا؟ اگر اس میں ضرر نہ ہوتا تو اللہ پاک منع نہ فرماتے۔ ان کا منع فرمانا دلیل ہے کہ اس میں ضرر ہی ضرر ہے اور سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم رحمۃُللعالمین ہیں، اگر بدنظری مفید ہوتی تو آپ یہ ارشاد نہ فرماتے کہ زِنَا الْعَیْنِ النَّظَرُ؎ بدنظری آنکھوں کا زنا ہے۔ حکیمُ الامّت فرماتے ہیں کہ بدنظری کے بعد حلاوتِ ایمانی سلب ہوجاتی ہے اور عبادت کا مزہ بھی نہیں آتا۔ تلاوت کرے گا مگر اس کی تلاوت بے کیف ہوگی کیوں کہ دماغ میں وہی صورت ہوگی، سجدہ کرے گا مگر اس کا سر خُدا کے حضور میں نہیں ------------------------------