درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
دائمی ہوتا ہے جو کبھی نہیں اترتا۔ دنیاوی شراب کی مستی تو ایک رات میں اُتر جاتی ہے لیکن اللہ کی محبت کا یہ نشہ تلواروں سے بھی نہیں اترتا۔ نظر بچانے پر جو وعدہ ہے حلاوتِ ایمانی کا کہ تم آنکھ کی مٹھاس ہم پر فدا کردو ہم دل کی مٹھاس تم کو عطا کردیں گے، تم حلاوتِ بصارت ہم پر فدا کردو ہم حلاوتِ بصیرت تم کو دے دیں گے۔ یہ علّامہ ابن جوزی رحمۃُاللہ علیہ کے الفاظ ہیں جو بہت بڑے عالم اور ولی اللہ گزرے ہیں، فرماتے ہیں کہ اللہ نے ہم سے آنکھوں کی حلاوت مانگی ہے کہ حرام نظر مت ڈالو، حسینوں کو مت دیکھو تو اللہ تمہارے دل کو حلاوتِ ایمانی دے دے گا۔ آنکھ کا مزہ لے لیا اور دل کو مست کردیا۔ اللہ نے حرام مستی کو حرام فرماکر ہمارا دل مست کردیا۔ دل کی مستی اور حلال مستی اور اللہ کی عطا فرمودہ مستی وہ مستی جس سے اللہ خوش ہے، یہ مستی اللہ کے راستے کا غم اُٹھانے سے نصیب ہوتی ہے، نظر بچانے کا غم اُٹھانے سے ملتی ہے، حسینوں سے دور رہنے کے غم پر ملتی ہے۔ اسی پر میرا شعر ہے جس کو سن کر ایک بڑے عالم نے فرمایا کہ آپ کا یہ شعر نہایت حسین ہے۔ وہ کیا شعر ہے ؎ میرے ایامِ غم بھی عید رہے ان سے کچھ فاصلے مفید رہے اللہ کے خوف سے حسینوں سے نظر بچائی تو دل میں غم آیا اور غم کے ساتھ ہی فوراً دل میں حلاوتِ ایمانی عطا ہوئی۔ حدیثِ پاک کے الفاظ ہیں مَنْ تَرَکَہَا مَخَافَتِیْ اَبْدَلْتُہٗ اِیْمَانًا یَّجِدُ حَلَاوَتَہٗ فِیْ قَلْبِہٖ؎ یہی حلوۂ ایمانی ہے جس سے اللہ کے عاشقوں کی ہر وقت عید ہے، عام لوگوں کو تو سال میں ایک عید ملتی ہے اور عید کے دنوں میں حلوہ ملتا ہے لیکن خُدائے تعالیٰ کے عاشقوں کو اور ان کے غلاموں کو بے پردگی اور عریانی کے اس دور میں ہر وقت نظر بچانی پڑتی ہے اس لیے ان کو ہر وقت حلوۂ ایمانی نصیب ہوتا ہے اس لیے ان کی ہر وقت عید ہے۔ اگر دن میں سو بار نظر بچائی تو سو دفعہ اس کی عید ------------------------------