درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
نہیں ملے گی کیوں کہ جنت میں نظر بچانے کا حکم ختم ہوجائے گا، وہاں شریعت نہیں رہے گی، وہاں سب فرشتوں کی طرح پاک ہوجائیں گے تو یہ مزہ دنیا ہی میں اُٹھالو۔ نظر بچاکر یہ حلوۂ ایمانی لوٹ لو۔ اللہ کے نامِ پاک کی اسی لذّت و مستی و حلاوتِ ایمانی کو جو سیدنا یوسف علیہ السلام کو عطا ہوئی مولانا اس شعر میں بیان فرماتے ہیں کہ ؎ آں چنانش انس و مستی داد حق کہ نہ زنداں یادش آمد نے غَسَق زنانِ مصر کی دعوتِ گُناہ کو رد کرنے اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچنے کی پاداش میں جب حضرت یوسف علیہ السلام کو قید خانے میں داخل کیا گیا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں ایسی مستی دے دی کہ نہ انہیں قید خانہ یاد آیا نہ قید خانے کی تاریکی یاد آئی۔ ان کی جانِ پاک پر اللہ تعالیٰ نے اپنی محبت کا ایسا خاص فیضان ڈالا کہ ان کو قید خانے کا احساس بھی نہیں ہوا۔ یہ اللہ کی شان ہے۔ مولانا اس سے ہم کو یہ سبق دیتے ہیں کہ گُناہوں کی عارضی لذّت چھوڑنا غم کا قید خانہ ہے اگر ہم ارادہ کرلیں اور ہمّت سے کام لیں کہ گُناہ نہیں کرنا ہے اور گُناہ نہ کرنے کا غم اُٹھانا ہے اور غم کے اس قید خانے کو دل و جان سے محبوب رکھنا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کو ناخوش کرکے حرام خوشیاں قلب میں درآمد نہیں کرنا ہیں، غیر اللہ کی شکل و صورت سے بچنے میں جان کی بازی لگانا ہے توا ن شاء اللہ! بطفیلِ سرورِ عالم سیدالانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم آج بھی اللہ تعالیٰ وہ مستی دینے پر قادر ہے کہ غم محسوس ہی نہ ہوگا اور ایسی مستی عطا ہوگی جس کا نشہ کبھی نہیں اُترے گا۔ مولانا رومی فرماتے ہیں ؎ خاصہ کاں خمرے کہ ازخُمِ نبی ست مستیٔ او دائمی نے یک شبی ست نبی علیہ السلام کے خُمِ محبت و معرفت ، خُمِ سُنت و شریعت سے جو مے عطا ہوتی ہے اس کا نشہ