درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
ہے اور سیّدنا حضرت یوسف علیہ السلام کی جانِ پاک نے جو اعلان کیا تھا وہی اعلان کرو کہ رَبِّ السِّجۡنُ اَحَبُّ اِلَیَّ مِمَّا یَدۡعُوۡنَنِیۡۤ اِلَیۡہِ؎ اے میرے پالنے والے!تیرے راستے کا قید خانہ مجھے پیارا ہے اس گُناہ سے جس کی طرف یہ بادشاہِ مصر کی عورت مجھے بلارہی ہے اور مجھے دھمکی دے رہی ہے کہ اگر گُناہ نہیں کرو گے تو تم کو قید خانے میں ڈال دیں گے لیکن اے خُدا! تجھے ناخوش کرنے سے مجھے قید خانہ احب ہے، تیری لذّتِ قُرب کے سامنے ساری دنیا کے رنج و صعوبتیں ہیچ ہیں، تیرے راستے کا غم سارے عالم کی خوشیوں سے مجھے عزیز تر ہے۔ تیری راہ کا قید خانہ اور قید خانے کا غم مجھے محبوب ہی نہیں بلکہ احب ہے اس خبیث بات سے جس کی طرف یہ عورتیں مجھے بلارہی ہیں۔ اور یہاں جمع کا صیغہ یَدْعُوْنَ کیوں نازل ہوا جب کہ بلانے والی واحد تھی یعنی صرف زلیخا بلارہی تھی۔ تو حضرت حکیمُ الامّت نے تفسیر بیان القرآن میں لکھا ہے کہ اللہتعالیٰ نے جمع کا صیغہ اس لیے نازل کیا کیوں کہ مصر کی عورتوں نے سفارش کی تھی کہ اے یوسف! اس کی خواہش پوری کردو لہٰذا گُناہ میں تعاون کرنا، مدد کرنا اور سفارش کرنا اتنا ہی جُرم ہے جتنا اصل مُجرم کا۔ اسی لیے رشوت کا دلانے والا اتنا ہی مجرم ہے جتنا لینے والا۔ اور یہ آیت اللہ تعالیٰ کی شانِ محبوبیت کی بھی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ اتنے پیارے ہیں کہ جن کے راستے کے قید خانے احب ہوتے ہیں تو ان کی راہ کے گلستان کیسے ہوں گے۔ یہ جملہ جب اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا فرمایا تو میری اردو کی لذّت پرند وہ کے عُلماء مست ہوگئے اور فرمایا کہ کیا استدلال ہے اور کیا شیرینیِ زبان ہے کہ جن کی راہ کے قید خانے محبوب ہی نہیں احب ہیں ان کی راہ کے گلستان کیسے ہوں گے، جن کے راستے کی تلخیاں پیاری ہیں تو ان کی شیرینیاں کیسی ہوں گی، جن کی راہ کے غم اور تکالیف احب ہیں توا ن کے نام کی لذّت کا کیا عالم ہوگا، کیوں کہ اللہ تعالیٰ بے مثل ہیں تو ان کے نام کی لذّت بھی بے مثل ہے جو جنت میں بھی نہیں ملے گی، خاص کرکے نظر بچانے کے غم پر حلاوتِ ایمانی کا جو وعدہ ہے یہ حلاوتِ ایمانی اس دنیا ہی میں ملتی ہے یہ جنت میں بھی ------------------------------