درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
کردیا تاکہ میرے بندے گُناہ سے بچ کر اپنے دل پر غم اُٹھائیں اور اسی سے ہم ان کو پیٹرول اور پرواز کی طاقت دے دیں۔ یہ قاعدہ کلیہ ہے کہ مشاہدہ بقدرِ مُجاہدہ۔ اللہ کے راستے میں جو جتنا غم اُٹھائے گا اتنی ہی بُلند اس کی پرواز ہوگی۔ اسی لیے شاہ ولی اللہ صاحب محدّ ثِ دہلوی رحمۃُ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ہیجڑے کو ولایتِ خاصّہ نہیں مل سکتی کیوں کہ اس کے اندر گُناہوں کے تقاضے نہیں ہوتے۔ ولایتِ عامّہ ملے گی اور جنّت میں بھی چلا جائے گا مگر ولایتِ خاصّہ، وہ خاص قُرب جو اولیائے صِدّیقین کو عطا ہوتا ہے وہ ان ہی کو عطا ہوتا ہے جن کے نفس میں تقاضے ہوں اور پھر انہیں روک کر غم اُٹھاتے ہوں۔ یہی ہےکَفُّ النَّفْسِ عَنِ الْھَوٰی۔ اسی ھَوٰی اور شہوت کو مولانا نے اس شعر میں ایندھن قرار دیا ہے جس کو جلانے سے یعنی ان کے مقتضاء پر عمل نہ کرنے سے ہی تقویٰ کی بھٹی روشن ہوتی ہے۔ آں چنانش انس و مستی داد حق کہ نہ زنداں یادش آمد نے غَسق ارشاد فرمایا کہ مولانا کے اس شعر کا حاصل یہ ہے کہ اللہ کے راستے کے غم سے گھبراؤ مت۔ اللہ کے راستے کا غم اتنا قیمتی ہے کہ دنیا بھر کی خوشیوں سے زیادہ قیمتی ہے۔ جتنی منزل قیمتی ہوتی ہے اس کے راستے کی تکلیف بھی اتنی ہی قیمتی ہوتی ہے اور محسوس بھی نہیں ہوتی۔ تو اللہ کے قُرب کی منزل اتنی قیمتی ہے کہ دنیا میں اس سے قیمتی کوئی منزل نہیں ہے۔ پس اللہ کے راستے کا غم کتنا قیمتی ہوگا ان کے راستے کے کانٹے کتنے قیمتی ہوں گے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کو زلیخا نے گُناہ کی دعوت دی اور اس نے دھمکی دی کہ اگر میری فرمایش پوری نہیں کرو گے تو ہم تمہیں قید خانے میں ڈلوادیں گے، ہم بادشاہ کی بیوی ہیں۔ آپ نے اس سے کچھ نہیں کہا بلکہ اللہ سے رجوع کیا، اپنے رب کو پکارا رَبِّ السِّجۡنُ اَحَبُّ اِلَیَّ اس آیت میں اشارہ ہےکہ ایسے وقت میں اللہ سے رجوع ہوجاؤ، جب زمین والے تم کو ستائیں تو آسمان والے سے فریاد کرو، زمین کے مقناطیس جب ہم کو کھینچیں تو آسمان والے جاذب کو پکارو جس کی قوتِّ جاذبہ سب سے بڑی