درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
تقاضا ختم نہیں ہورہا ہے ۔ معلوم ہوتا ہے کہ خانقاہ سے مجھے فیض حاصل نہیں ہوا۔ یہ انتہائی نادان صوفی ہے۔ جو صوفی تقاضائے معصیت سے گھبراتا ہے۔ اس نے شیخ سے کچھ نہیں سیکھا کیوں کہ گُناہ کا تقاضا ہونا گُناہ نہیں، تقاضے پر عمل کرنا گُناہ ہے ۔ تقاضا روکنے سے جو غم آئے گا اسی سےتو اللہ ملے گا۔ اسبابِ قُرب کو آپ اسبابِ بُعد کیوں سمجھتے ہیں۔ اگر لکڑی بھی نہ رہے تو چولہا روشن کیسے ہوگا؟ اسی کومولانا رومی اس شعر میں فرماتے ہیں کہ گُناہ کے تقاضے ایندھن ہیں تقویٰ کا۔ تقویٰ کا حمام گرم ہی ہوتا ہے تقاضائے معصیت کو اللہ کے خوف کی آگ میں جلانے سے۔ اسی آگ سے نُور تقویٰ پیدا ہوتا ہے۔ یہ تقاضے تقویٰ کا ایندھن اور میٹریل ہیں، جو اس کو ختم کرنا چاہتا ہے بے وقوف ہے۔ اس لیے گُناہوں کے تقاضوں کی شدّت سے کبھی گھبرانا نہیں چاہیے: جس کے دل میں تقاضے زیادہ ہیں سمجھ لو اس کو اللہ تعالیٰ نے ایندھن زیادہ دیا ہے اور ایندھن کا زیادہ ہونا نعمت ہے کیوں کہ زیادہ ایندھن جلاؤ گے تو نور بھی زیادہ پیدا ہوگا۔نفس میں تقاضے جتنے زیادہ ہوں گے اتنا ہی تقاضوں کو روکنے میں مُجاہدہ زیادہ ہوگا اور جتنا مُجاہدہ زیادہ ہوگا اتنا ہی زیادہ اور قوی تقویٰ کا نور پیدا ہوگا لہٰذا تقاضائے معصیت بالکل مضر نہیں بلکہ ان کو جلادو تو یہی قُرب و ترقی کا ذریعہ ہیں۔ اللہ کی محبت اور تقویٰ کی بریانی تقاضوں کے ایندھن سے تیار ہوتی ہے۔ اس لیے یہ تمنّا مت کرو کہ یہ ایندھن ہی ختم ہوجائے۔ اگر ایندھن نہ ہوگا تو بریانی کیسے پکے گی؟ جو گناہوں کے تقاضوں سے گھبراتا ہے اصل میں یہ لومڑی ہے، طاقت چور ہے ہمّت چور ہے۔اس کو گُناہوں کے تقاضوں سے گھبراہٹ اس لیے ہوتی ہے کیوں کہ ان کو روکنے کے لیے ہمّت استعمال نہیں کرتا۔ ان کو روک کر تو دیکھو کہ کتنا نور پاجاؤ گے۔ ایک دم ایسی پرواز عطا ہوگی کہ بڑے بڑے عبادت گُزار اس مقام پر نہیں پہنچ سکیں گے۔ آپ کی روح کا جہاز ایک دم ٹیک آف کرجائے گا۔ آپ جانتے ہیں کہ جب جہاز ٹیک آف کرتا ہے تو کتنا ایندھن خرچ ہوتا ہے؟ دو تین ہزار گیلن پیٹرول اس وقت خرچ ہوجاتا ہے تو جو شخص اللہ کی طرف اُڑنا چاہتا ہے اس کو پیٹرول زیادہ چاہیے۔ اللہ نے اسباب پیدا کردیے، لیلاؤں کو پیدا کردیا، حسینوں کو پیدا