درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
مثنوی کے الہامی ہونے کا اشارہ ہے۔اور اس سے زیادہ واضح اشارہ مولانا کےدوسرے شعر میں ہے۔ فرماتے ہیں ؎ چوں فتا داز روزنِ دل آفتاب ختم شد و اللہ اعلم بالصواب قلب میں جس دریچۂ باطنی سے آفتاب علم کے فیضان سے علوم و معارفِ غیبہ وارد ہورہے تھے وہ آفتابِ فیض قلب کے محاذات سے بحکمتِ خُداوندی غروب ہوگیا لہٰذا مثنوی ختم ہوگئی اور اللہ ہی کو خوب معلوم ہے کہ صواب اور حکمت کس وقت کس چیز میں ہے ان کا ہر فعل حکمت کے موافق ہے لہٰذا اس وقت جب اُنہوں نے ایسا کیا تو یقیناً اس میں کوئی حکمت ہے، اس لیے اب میں بہ تکلف کلام نہیں کروں گا اور مثنوی کو ختم کرتا ہوں لہٰذا مولانا نے مثنوی لکھنا بند کردی اور قصّہ بھی ادھورا چھوڑ دیا۔ یہی دلیل ہے کہ یہ الہامی کلام تھا۔ اگر الہامی نہ ہوتا تو جو شخص ساڑھے اٹھائیس ہزار اشعار لکھ سکتا ہے کیا وہ چند اشعار لکھ کر مثنوی کو پورا نہیں کرسکتا تھا۔ مجھے بچپن سے مولانا رومی سے عشق ہے ۔ میں بہت چھوٹا تھا جب سے مولانا کے اشعار پڑھ پڑھ کے رویا کرتا تھا خصوصاً یہ شعر ؎ آہ را جز آسماں ہمدم نبود راز را غیرِ خُدا محرم نبود ترجمہ: میں جنگل کی تنہائی میں ایسی جگہ اللہ کا نام لیتا ہوں جہاں سوائے اللہ کے میری آہ کا کوئی ساتھی نہیں ہوتا اور میری محبت کےراز کو سوائے خُدا کے کوئی نہیں جانتا۔ الحمد للہ! میں نے وہ جنگل دیکھا ہے جہاں مولانا نے یہ شعر کہا تھا اور جہاں اللہ تعالیٰ کی محبت و معرفت کے ساڑھے اٹھائیں ہزار درد بھرے الہامی اشعار مولانا کی زبان سے جاری ہوئے۔ پورا جنگل آج بھی نور سے بھرا ہوا معلوم ہوتاہے۔ بچپن ہی سے مجھے مولانا کے شہر قونیہ دیکھنے کی آرزو تھی۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آرزو بھی پوری کردی اور اسی سال لندن جاتے ہوئے ترکی کے دارالخلافہ استنبول میں قیام کیا جہاں لندن کے