درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
تھے۔ مجدّد زمانہ حضرت حکیم ُ الامّت تھانوی رحمۃُ اللہ علیہ نےمثنوی کی شرح لکھی ہے جس کا نام ہے کلیدِ مثنوی۔ مختلف ملکوں مختلف زبانوں کے بڑے بڑے اولیاء اس کو پڑھ کر مست ہوتے ہیں۔ مثنوی الہامی کتاب ہے۔ مولانا رومی خود فرماتے ہیں ؎ قافیہ اندیشم و دلدارِ من گویدم مندیش جز دیدارِ من جب میں قافیہ سوچنے لگتا ہوں تو آسمان سے آواز آتی ہے کہ اے جلالُ الدین! مت سوچ، مثنوی تو ہم لکھوارہے ہیں بس میری طرف متوجہ رہو، قافیہ میں عطا کروں گا۔ دیدارِ من سے مراد یہی ہے کہ میری طرف متوجہ رہو ورنہ بندہ اللہ کا دیدار اس دنیا میں کیسے کرسکتا ہے۔ دیدار کے معنیٰ یہ ہیں کہ اللہ موجود ہے اور وہ دیکھ رہا ہے تو گویا تم بھی اللہ کو دیکھ رہے ہو جیسے اندھا کسی بینا سے ملاقات کرکے کہتا ہے کہ آج ہم ان کو دیکھ آئے اگرچہ اس نے نہیں دیکھا آنکھوں والے نے اس کو دیکھا لیکن اس کے دیکھنے کو اور اس کے سامنے حضوری کو اندھا اپنے دیکھنے سے تعبیر کرتا ہے۔ دنیا میں حق تعالیٰ کی معیتِ خاصہ، مشاہدۂ حق اور توجہ الی اللہ کو حدیثِ احسان میں سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا کہ اَنْ تَعْبُدَاللہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ فَاِنْ لَمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہٗ یَرَاکَ؎ اللہ تعالیٰ کی ایسی عبادت کرو کہ گویا تم اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہے ہو پس اگر تم اس کو نہیں دیکھتے تو اللہ تو تمہیں دیکھ رہا ہے۔ پس جب اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہے ہو تو گویا تم بھی اللہ کو دیکھ رہے ہو اس حدیث کی شرح علامہ ابن حجر عسقلانی نے یہ فرمائی ہے کہ اَنْ یَّغْلِبَ عَلَیْہِ مُشَاہَدَۃُ الْحَقِّ بِقَلْبِہٖ حَتّٰی کَاَنَّہٗ یَرَاہُ تَعَالٰی شَانُہٗ بِعَیْنِہٖ؎ اللہ تعالیٰ کی حضوری قلب پر ایسی غالب ہوجائے کہ گویا بندہ اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہا ہے۔ اس شعر میں دیدار سے مراد یہی توجہ الی اللہ ہے کہ حضور قلب اور توجۂ کاملہ کے ساتھ میری طرف متوجہ رہو مثنوی کو میں تمہارے قلب پر القاء کروں گا۔ اس شعر میں ------------------------------