درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
قلب میں آیا ہے یہ آپ کی ناخوشی کے راستے سے آیا ہے۔ پس ایسی خوشی کو ہم اپنے لیے لعنتی خوشی سمجھتے ہیں۔ جس خوشی سے آپ ناخوش ہوں ہم ایسی خوشی کو طلاق دیتے ہیں اور لعنت بھیجتے ہیں۔ آپ ہم کو مُعاف کردیجیے اور اللہ سے ہمّت بھی مانگیے کہ یا خُدا!ایسی ہمّت اور توفیق دے دیجیے کہ حرام خوشیوں کے نقطۂ آغاز ہی پرہم کو تنبیہ ہوجائے۔ ہمارا ترازو لکڑی تولنے والا نہ ہو جس میں ایک آدھ پاؤ رکھ دو تو پتا نہیں چلتا۔ ہمارے قلب کے ایمان کی ترازو کو آپ سونے کی ترازو بنادیجیے کہ ذرا سی مکھی بھی بیٹھ جائے تو ہل جاتی ہے۔ جوہری کہتے ہیں کہ جب ہم سونا تولتے ہیں تو سانس بھی نہیں لیتے کیوں کہ سانس سے بھی وہ ہل جاتی ہے۔ ہمارے قلب کی ترازو کو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے اتنا حسّاس کردے کہ حرام خوشی کا ایک ذرّہ آجائے تو وہ ہل جائے اور فوراً ہی توبہ کی توفیق ہوجائے۔ پھر دیکھو زندگی کا مزہ، پھر جینے کی بہار دیکھو۔ جو اللہ پر مرے وہ جینے کی بہار پاگئے اور جو اپنی خواہشات پر مرے وہ دوزخی زندگی دنیا ہی سے لے گئے۔ بس جس کے قلب کی ترازو سونے کی ہوگئی سمجھ لو وہ اللہ کی محبت کی زنجیرمیں بندھ گیا اور غیر اللہ کی ہر زنجیر کو وہ توڑ دے گا ؎ سرنگونم ہیں رہا کُن پائے من فہم کو درجملۂ اجزائے من ارشاد فرمایا کہ مولانا رومی فرماتے ہیں کہ اے دنیا والو! میں نے اپنا سر جھکالیا ہے۔ اب میرے پاؤں کو رہائی دے دو اور میرے پیر کی زنجیر توڑ دو۔ اب میں دیوانہ بننا چاہتا ہوں اور تعلقاتِ ماسویٰ سے آزاد ہونا چاہتا ہوں۔ اب مجھے مت سمجھاؤ کہ اگر یہ ہوگا تو مگر کیا ہوگا۔ میرے جسم کے اجزاء میں اب سمجھنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ دنیا کے خوف سے اب میں اللہ کو نہیں چھوڑ سکتا چاہے جان چلی جائے، اب مجھے اللہ کو راضی کرنا ہے اور ایک سانس بھی ان کی نافرمانی نہیں کروں گا۔ میرے قلب کو اللہ تعالیٰ نے اس شعر کی جو شرح عطا فرمائی شاید کہیں نہیں پاؤ گے اور وہ یہ ہے کہ جانور جب رسّی تڑاناچاہتا ہے تو سر جُھکالیتا ہے۔ جنہوں نے جانور پالا ہے وہ جانتے ہیں کہ رسّی تڑانے کے لیے جانور سر جُھکالیتا ہے۔ یہ علامت ہے کہ اب