درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
زنجیرِ زُلفِ دلبرم کے معنیٰ ہیں میرے دلبر کے زُلف کی زنجیر یعنی اتباعِ سنّت اور اتباعِ شریعت اور اللہ کی محبت کے دستور و احکام و قوانین کی زنجیر۔ اے دنیا والو! اللہ کی محبت کی اس زنجیر کے علاوہ اگر دو سو زنجیریں بھی لاؤ گے تو میں انہیں توڑ دوں گا۔ زنجیرِ غیر اللہ کو توڑنے کا اور زنجیرِ محبت و سُنّت و شریعت میں باندھنے کا کیا طریقہ ہے۔ (راقم الحروف کو مخاطب کرکے فرمایا کہ) میر صاحب! اسے لکھ لو بلکہ اس کی کمپیوٹر میں کتابت کرالو بہت محفوظ رکھنا اس مضمون کو اور آپ لوگ بھی پوری توجہ اور اہمیت سے اس کو سُنیں کہ جب کسی نامحرم عورت یا کسی نمکین لڑکے پر پہلی نظر پڑنے پر ذرا سا بھی نمک دل میں آجائے اور آپ کا ٹیسٹر بتادے کہ ایک ذرّہ آ گیا ہے تو نظر ہٹاکر فوراً توبہ کرلو۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ خطا نہیں ہوگی، ہم یہ کہتے ہیں کہ توبہ میں دیر نہ ہوتا کہ آپ باخطا ہوتے ہوئے بھی باعطا ر ہیں۔ دیکھیے ہم خطا سے تو بچ نہیں سکتے ورنہ پھر ہم فرشتے ہوجاتے۔ بس اِسۡتَغۡفِرُوۡا کے حکم پر عمل ہوجائے یہ بھی بڑی نعمت ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اِسۡتَغۡفِرُوۡا رَبَّکُمۡ ؕ؎ اپنے رب سے مغفرت مانگو۔ معلوم ہوا کہ ہم سے خطا ہوگی جب ہی تو مُعافی مانگنے کا حکم دے رہے ہیں۔فرشتوں سے کیوں نہیں فرمایا کہ مغفرت مانگو؟ اس لیے کہ اُن سے خطا نہیں ہوتی۔ معصوم مخلوق کے لیے یہ حکم نہیں ہے، یہ حکم گناہ گاروں کے لیے ہے کہ جب خطا ہوجائے ،پوری کوشش کے باوجود تقویٰ ٹوٹ جائے تو روناشروع کردو تو اس کا انعام کیا ہوگا؟ اِنَّ اللہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ؎ اللہ تعالیٰ صرف مُعاف ہی نہیں کریں گے اپنا محبوب بھی بنالیں گے۔ میں باخطا رہتے ہوئے باعطا رہنے کا نسخہ بتارہا ہوں کہ معصیت کی حرام لذّتوں کے اندر آنے کے نقطۂ آغاز اور زیرو پوائنٹ پر تنبیہ ہوجائے کہ اللہ! مجھے معاف کردیجیے۔ یہ ایک ذرّہ خوشی جو میرے ------------------------------