درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
وہ قید سے عاجز آچکا ، اس کے ہوش و حواس اب قابو میں نہیں اور رسّی تڑاکر بھاگنا چاہتا ہے۔ اس سے طاقت آجاتی ہے تو مولانا رومی فرماتے ہیں کہ اے دنیا والو! اب ہم بھی سر جُھکاچکے، اب ہمیں ماسویٰ کا ہوش نہیں، اب ہم تعلقاتِ دُنیوی کی رسّی تڑانے والے ہیں۔ دنیا کی زنجیروں نے ہم کو بہت جکڑ رکھا تھا، اب ہم ان زنجیروں کو توڑ کے رہیں گے اور اللہ والے بن کے رہیں گے ؎ جامع پوشاں را نظر برگاذراست روحِ عریاں را تجلّی زیوراست ارشاد فرمایا کہ لباس کے عاشقین کی نظر دھوبیوں پر رہتی ہے کہ کون سا ڈرائی کلینر کپڑے کو زیادہ چمکاتا ہے اور اللہ کے عاشقوں کی روح کا زیور اللہ کی تجلّی ہے۔ اللہ کے جلوؤں سے ان کی روح منوّر ہے۔ یہ لباس تو جسم پر رہتا ہے مگر روح کا لباس اللہ کی تجلّیات کا ہوتا ہے۔ یہ اپنی روح کو چمکانے میں ہیں اور وہ اپنے کپڑے کو چمکانے میں۔ اور روح کا چمکانا کیا ہے؟ طَہَارَۃُ الْاَسْرَارِ مِنْ دَنَسِ الْاَغْیَارِ؎ غیر اللہ کی گندگی سے باطن کو پاک کرنا۔ حسینوں سے نظر بچانے سے، گناہوں سے بچنے سے روح مجلّی ہوتی ہے تب اللہ تعالیٰ اپنی تجلّیاتِ خاصّہ سے اس میں متجلّی ہوتا ہے۔ یہ تجلّیاتِ الٰہیہ روح کا زیور ہیں ؎ اُڑادیتا ہوں اب بھی تار تارِ ہست وبوداصغر لباسِ زُہد و تقویٰ میں بھی عریانی نہیں جاتی بس اب دعا کریں کہ اے اللہ! ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرما، اے اللہ! ہمارے ظاہر کو بھی پاک فرمادیجیے اور ہمارے باطن کو بھی غیر اللہ کی نجاستوں سے پاک فرمادیجیے اور ہماری روح کو اپنی تجلّیاتِ خاصہ سے منّور فرمادیجیے۔ اٰمِیْن وَصَلَّی اللہُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِیْمِ------------------------------