درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
شیخ کی رفاقت کے معنیٰ ہیں کُوْنُوْامَعَ الصّٰدِقِیْنَ؎ جس کی تفسیر ہے اَیْ خَالِطُوْ ھُمْ لِتَکُوْنُوْا مِثْلَھُمْ ؎ شیخ کے دستر خوان پر سموسہ بریانی و گرین مرچ اُڑانے اور ٹھنڈا پانی پینے کا نام رفاقت نہیں ہے۔ شیخ کی رفاقت و معیت یہ ہے کہ تم بس اسی جیسے ہوجاؤ، جس طرح وہ گناہوں سے بچتا ہے تم بھی بچنے لگو، جس طرح وہ حسینوں سے نظر بچاتا ہے تم بھی بچانے لگو، اس کی آہ تمہاری آہ ہوجائے، تمہاری آنکھیں بھی اس کی آنکھوں کی طرح اشکبار ہوں تب سمجھ لو کہ تم شیخ کے عاشق ہو اور اللہ کے طالب اور اللہ پر دیوانہ بننے کا فن تمہیں آگیا ؎ رو رو اے جاں زُود زنجیرے بیار بارِ دیگر آمدم دیوانہ وار ارشاد فرمایا کہ مولانا فرماتے ہیں اے میری جان! جلدی جا، جلدی جا اور اللہ کی محبت کی زنجیر لے آ کہ میں اب دیوانہ ہورہا ہوں اور دیوانوں کو زنجیر میں باندھا جاتا ہے لہٰذا اس زنجیرِ محبت میں مجھے باندھ دے۔ اس زنجیر سے مُبارک اور کوئی زنجیر نہیں کہ جو اللہ کے حضور میں مجھے سربستہ و پاگرفتہ پہنچادے۔ اب تک جو ہوا سو ہوا اب میں دیوانہ وار دوبارہ اللہ پر فدا ہورہا ہوں ؎ غیر آں زنجیرِ زلفِ دلبرم گر دو صد زنجیر آری بردرم ارشاد فرمایا کہ مولانا فرماتے ہیں کہ اے دنیا والو! اگر اللہ کی محبت کی زنجیر لاؤ گےتو میں اس میں خود گرفتار ہوجاؤں گا، خود اس میں بندھ جاؤں گا بلکہ باندھنے میں تمہاری مدد بھی کروں گا اور دل میں خوشی محسوس کروں گا کہ کہا ںیہ میری قسمت کہ میں زنجیرِ شریعت اور زنجیرِ اتباعِ سُنّت میں گرفتار ہورہا ہوں۔ ------------------------------