درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
خود گونگے ہوگئے اور فَاۡتُوۡا بِسُوۡرَۃٍ مِّنۡ مِّثۡلِہٖ الخ کی قرآنی للکار پر ایڑی چوٹی کا زور لگانے کے باوجود قرآن پاک کے مثل ایک جملہ بناکر نہ لاسکے اور اپنا سا منہ لے کر رہ گئے اور کیسے عاجز نہ ہوتے کیوں کہ یہ اللہ کا کلام تھا۔ اسی کو مولانا رومی فرماتے ہیں ؎ گفتۂ اُو گفتۂ اللہ بُود گرچہ از حلقومِ عبداللہ بُود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سینۂ مُبارک پر جو قرآن پاک نازل ہوا وہ اگرچہ آپ کی زبانِ مُبارک سے صادر ہوا لیکن وہ اللہ کا کلام تھا، زبان عبداللہ سے کلام اللہ جاری ہورہا تھا جس نے اہل عرب کی فصاحت و زباں دانی کا ناز خاک میں ملادیا۔ اسی کو مولانا رومی نے فرمایا ؎ صَد ہزاراں دفترِ اشعار بُود پیشِ حرفِ امیش آں عار بُود ترجمہ: اہلِ عرب کے پاس فصیح و بلیغ اشعار کے دفتر کے دفتر موجود تھے لیکن اس رسولِ اُمّی کے ایک حرفِ آسمانی کے سامنے وہ سارے کے سارے دفتر حیرت وشرمندگی میں غرق ہوگئے۔ اور بُخاری شریف سیدالانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام ہے اور’’بعد از خُدا بزرگ توئی قصہ مختصر‘‘ آپ کی شان ہے لہٰذا کلام اللہ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کی بھی کوئی مثل نہیں۔ سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا ہے کہ اُوْتِیْتُ جَوَامِعَ الْکَلِمِ ؎ قرآن و حدیث کے بعد جس کتاب کو سب سے زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی وہ مثنوی مولانا روم ہے۔ مولانا رومی اُمّت کے بہت بڑے شخص ہیں۔ اُمت کے بڑے بڑے عُلماء اور اولیاء اللہ ہر زمانے میں مثنوی سے استفادہ کرتے چلے آرہے ہیں۔ میرے شیخ فرماتے تھے کہ مثنوی دل میں اللہ کی محبت کی آگ لگادیتی ہے۔ ہمارے اکابر کو دیکھ لیجیے۔ شیخ العرب و العجم حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکی رحمۃُ اللہ علیہ مثنوی کے عاشق ------------------------------