درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
زندہ حقیقی کیسے آئے گا۔ اگر ایک کمرے میں مُردے لیٹے ہوں تو جب آپ ایسے گھر میں رہنا پسند نہیں کرتے تو وہ زندہ حقیقی ایسے دل میں کیسے اپنی تجلّیاتِ خاصہ سے متجلّی ہوگا۔ اللہ والوں کے ساتھ رہنے کا مقصد یہ ہے کہ حسینوں کا حرام نمک چکھنا چھوڑ دو، اس نمک حرامی سے توبہ کرلو۔ اگر اللہ والوں کے ساتھ رہ کر بھی کوئی حرام نمک چکھنا نہیں چھوڑتا، حسینوں کو، نامحرموں کو دیکھتا ہے اور اپنی عقلِ ناقص کی اتباع کررہا ہے کہ اگر میں نے یہ نمک چھوڑ دیا تو زندگی کیسے گزرے گی لہٰذاکم از کم ایک ذرّہ حُسن کا حرام نمک کبھی کبھی چکھتا رہوں، تو کان کھول کر سُن لو کہ ہر گز اللہ کو نہیں پاسکتے۔ اللہ جب ملے گا کہ قلب و نظر کو مکمل توفیقِ تقویٰ حاصل ہو اور دل کا ٹیسٹر اتنا حسّاس ہوجائے کہ حسینوں کے نمک آنے کے نقطۂ آغاز اور زیرو پوائنٹ کو ریکارڈ کرےکہ ایک ذرّہ نمک حرام دل میں داخل ہوگیا جیسے بجلی کا تار شاٹ ہورہا ہو تو ٹیسٹر میں فوراً روشنی آجاتی ہے اور پتا چل جاتا ہے کہ یہاں سے بجلی لیک یعنی خارج ہورہی ہے۔ اسی طرح جس کے قلب کو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے اتنا حسّاس بنادے کہ نمک حرام کا ایک ذرّہ اگر داخل ہو تو فوراً اس کے قلب کے ٹیسٹر میں روشنی آجائے اور لیکیج (بجلی کے خروج) کے اثرات شروع ہوجائیں اور اسی وقت توبہ کی توفیق ہوجائے کہ اے اللہ! آپ مجھے معاف کردیجیے کہ اتنی خوشی میرے قلب میں حرام آگئی۔ میں اس خوشی سے جو آپ کی ناخوشی کے راستے سے آئی مُعافی چاہتا ہوں تب سمجھ لو کہ اس بندے میں حیا اور شرافت آگئی اور یہ اللہ کا دیوانہ بن گیا، فنِ دیوانگی اس کو آگیا اور عقلِ ناقص و خام کی غُلامی سے آزاد ہوگیا اور اگر یہ بات حاصل نہیں تو خانقاہ میں آنا جانا سب بے کار ہے۔ سُن لو میری بات! ور نہ قیامت کے دن جواب دینا پڑے گا کہ دن رات تم یہی باتیں سُن رہے تھے پھر عمل کیوں نہیں کیا۔ میرے شیخ نے فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ جب قیامت کے دن پوچھے گا کہ تم کومیں نے مولانا اشرف علی حکیمُ الامّت جیسا پیر دیا تھا تو تم نے اس کا کیا شُکر ادا کیا تو حضرت رونے لگتے تھے کہ آہ! میں کیا کہوں گا۔ آہ! یہ وہ لوگ تھے جو شیخ پر فدا ہوگئے، شیخ کے ایک ایک ارشاد پر جان دیتے تھے، ان کو یہ خوف تھا کہ ہم سے شیخ کی قدر نہ ہوئی اور ہمارا کیا حال ہے کہ صریح نافرمانی کے بعد بھی ہمیں کوئی غم نہیں ہوتا۔