درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
آزمودم عقلِ دور اندیش را بعد ازیں دیوانہ سازم خویش را ارشاد فرمایا کہ مولانا فرماتے ہیں کہ میں نے عقل کو بہت آزمایا۔ عقلِ سے مراد یہاں عقل ناقص ہے، یعنی عقل مجردمن العشق، عقل محروم از نعمتِ عشق۔ لہٰذا ہم نے عقلِ ناقص مجرد من العشق کو بہت آزمایا لیکن اللہ نہیں ملا۔ ہم نے بہت کوشش کی کہ عقل سے اللہ کو پاجائیں لیکن عقلِ ناقص اللہ کے راستے میں کامیاب نہیں ہوئی اس لیے ہم نے اپنے کو اللہ کا دیوانہ بنالیا یعنی عقل میں عشق کی چاشنی لگادی تو عقل کامل ہوگئی اور ہمارا کام بن گیا۔ عقل کو جب عشق کا پیٹرول ملتا ہےتب عقل دوڑتی ہے ورنہ آدمی جانتا ہے کہ نماز پڑھنا چاہیے لیکن بے نمازی بیٹھا رہتا ہے، جانتا ہے کہ حسینوں کو نہیں دیکھنا چاہیے لیکن پاگلوں کی طرح دیکھتا رہتا ہے لیکن جب عشق عقل کا امام بن جاتا ہے اور عقل عشق کی پیروی کرتی ہے تو پھر اللہ تک پہنچتی ہے۔ بغیر اللہ کا دیوانہ و عاشق بنے کام نہیں بنتا ؎ عاشقم من برفنِ دیوانگی سیرم از فرہنگ و از فرزانگی مولانا فرماتے ہیں کہ اللہ کا دیوانہ بننے کا جو فن ہے میں اس پر عاشق ہوں اور میں عقلِ ناقص و خام سے بہت زیادہ سیر ہوچکا ہوں۔ اب مجھے اللہ کا دیوانہ ہونا ہے اور جو اللہ کا دیوانہ ہوتا ہے پھر وہ غیر اللہ کا دیوانہ نہیں ہوتا۔ بیک وقت رات اور دن یکجا نہیں ہوسکتے، بیک وقت عود کی خوشبو او رپائخانہ جمع نہیں ہوسکتے، یا تو رات ہوگی یا دن ہوگا، یا خوشبو ہوگی یا بدبو ہوگی۔ یا تو دل تجلّیاتِ الٰہیہ سے متجلّی ہوگا یا پھر اس میں غیر اللہ کے اندھیرے ہوں گے۔ یہ محال ہے کہ دل میں غیر اللہ ہو اور وہ دل اللہ کی تجلیاتِ خاصّہ سے بھی مشرف ہوجائے۔ مُردہ اور زندہ ساتھ نہیں رہ سکتے۔ اللہ تو زندہ حقیقی ہے، جس دل میں مُردے ہوں گے، مرنے والے بسے ہوں گے، مرنے والی لاشوں کی محبت ہوگی اس دل میں وہ