درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
عبادت کے ایک مہینے میں ایک دن کا راستہ طے کرتے ہیں اور عارفین عاشقین ہر سانس میں عرشِ اعظم تک پہنچتے ہیں بوجہ اللہ تعالیٰ کی محبت اور دین کی سمجھ کے اور گُناہوں سے بچنے میں اپنے دل کا خُون کرنے کی برکت سے۔ اسی لیے کہتا ہوں کہ کسی اللہ والے سے اللہ کی محبت سیکھ لو تو تمہارا ایک سجدہ ایک لاکھ سجدوں کے برابر ہوجائے گا، تمہاری دو رکعت لاکھ رکعات کے برابر ہوجائیں گی، ایک عمرہ لاکھ عمروں کے برابر ہوجائے گا ان شاء اللہ تعالیٰ۔ جب اللہ کی محبت کا درد ملتا ہے تو کعبہ کچھ اور نظر آتا ہے ورنہ جب گھر والے ہی کو نہیں جانتے تو گھر سے کیا ملے گا۔ گھر میں جاکر لوگ بدنظری کرتے ہیں، کوئی لڑکی کو دیکھ رہا ہے،کوئی لڑکے کو دیکھ رہا ہے، کوئی فریج کی تحقیق بتارہا ہے کہ آج میں نے فلاں فریج خریداہے۔ غیر اللہ کی گفتگو بیتُ اللہ میں ہورہی ہے کیوں کہ اپنے ملکوں میں غیر اللہ سےقلب خالی نہیں کیا، دل کی آنکھوں کا آپریشن نہیں کروایا تو کعبہ میں بھی ان کو اللہ نہیں ملتا۔ اسی لیے ایک بزرگ نے اپنے ایک مرید سے فرمایا تھا جو نفلی حج کرنے جارہا تھا کہ فرض حج تو ادا کرلیا اب کہاں نفل کے لیے جارہے ہو، پہلے اللہ کی محبت حاصل کرو، کعبہ والے سے جان پہچان کرو پھر کعبہ میں تمہیں کعبہ والا نظر آئے گا اور یہ شعر پڑھا ؎ اے قوم بہ حج رفتہ کُجائید کُجائید معشوق ہمیں جاست بیائیدبیائید حکیم الامّت کے وعظ میں یہ شعر ہے کہ اس اللہ کے ولی نے یہ کہا تھا کہ اے لوگو! کہاں نفل حج کے لیے چلے جارہے ہو معشوق یعنی اللہ تو ہمارے پاس ہے،تم کہاں جارہے ہو ادھر آؤ ادھر آؤ۔ کعبہ سے تمہیں اللہ نہیں ملے گا۔ اللہ، اللہ والے سے ملے گا۔ پہلے مجھ سے اللہ کو حاصل کرلو، اللہ کی محبت سیکھو پھر نفلی حج یا عمرہ کے لیے جاؤ تو پھر تمہیں کعبہ کا مزہ آئے گا، پھر تمہیں کعبہ میں اللہ کی تجلّیات نظر آئیں گی، مولانا فرماتے ہیں ؎ حج کردن زیارتِ خانہ بود حجِ ربُّ البیت مردانہ بود عام لوگ تو بیتُ اللہ کا طواف کرتے ہیں لیکن خاصّانِ خُدا ربُّ البیت کا طواف کرتے