درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
ضامن ہے کیوں کہ یہ علم کہ ہم ایک قوم ہیں اور ایسی قوم ہیں کہ جن سے اللہ محبت کرتا ہے اور جو اللہ سے محبت کرتےہیں تو ہر شخص اپنی قوم کو محبوب رکھتا ہے جیسے جن بچوں کو باپ سے تعلق قوی ہوتا ہے وہ آپس میں ایک دوسرے سے محبت رکھتے ہیں اور باپ سے تعلق کمزور ہوتا ہے تو آپس میں لڑائی ہوتی ہے۔ جو اللہ کی محبت سے محروم ہیں وہی آپس میں لڑتے ہیں اور جن کے قلب اور قالب پر اللہ کی محبت غالب ہے وہ ایک دوسرے پر فِدا ہوئے جاتے ہیں۔ مثنوی کے اس شعر کی شرح میں آج ایک عظیم علم اللہ نے عطا فرمایا کہ جتنے مرتد ہیں بے وفا ہیں، یہ اہلِ محبت نہیں ہیں۔ یہ پیاسے نہیں تھے ورنہ پانی ان کو خود تلاش کرلیتا ۔اگر ان کے دل میں محبت کی پیاس ہوتی تو اللہ کی رحمت ان کو خود تلاش کرلیتی، اپنے آغوش کرم میں لے لیتی۔ اللہ تعالیٰ اپنے عاشقوں کو محروم نہیں فرماتے کیوں کہ عاشق بھی اپنے محبوب کا در نہیں چھوڑتا۔ خواجہ صاحب نے اس حقیقت کو اپنے اس شعر میں پیش کیا ہے ؎ میں ہوں اور حشر تک اس در کی جبیں سائی ہے جبیں معنیٰ پیشانی یعنی ہماری پیشانی اللہ کی چوکھٹ کو رگڑتی رہے گی قیامت تک اگر اللہ ہمیں زندگی دے دے تو ہم بے وفا اور بھاگنے والے نہیں ہیں، اللہ کے دروازے پر ہماری پیشانی قیامت تک رہے گی ؎ سرِ زاہد نہیں یہ سرسرِ سودائی ہے یہ عاشقوں کا سر ہے، یہ زاہدِ خشک کا سر نہیں ہے جو ان کے دَر کو چھوڑ کر بھاگ جائے۔ اگر اہلِ محبت بھی بے وفا ہوتے تو مرتدین کے مقابلے میں یہ آیت نازل نہ ہوتی۔ اگر اہلِ محبت بے وفا ہوتے تو نعوذ باللہ مرتد کا مقابلہ مرتد سے ہوتا حالاں کہ مقابلہ تو ضد سے ہوتا ہے جیسے دو من طاقت والے پہلوان کے مقابلے میں چار من طاقت والا پہلوان لایا جاتا ہے۔ پس اس آیت میں اہلِ ارتداد کا مقابلہ اہلِ وفا سے ہوا تو معلوم ہوا کہ یہ قوم اہلِ وفا ہے جو کبھی مرتد نہ ہوگی۔ بے وفائی کی کُلّی مشکّک کے فردِ کامل