درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
ایک قوم ہیں اگرچہ کوئی پنجابی ہے، کوئی بنگالی ہے، کوئی ہندوستانی ہے، کوئی فارسی ہے، کوئی عربی ہے، لاکھوں زبانیں ہیں مگر اللہ کے عاشقوں کو اللہ نے ایک قوم فرمایا۔ دیکھو یہاں کتنے ملکوں کے لوگ جمع ہیں۔ یہ برطانیہ کا ہے یہ انگریزی میں ہاؤ آر یو کہے گا، یہ جنوبی افریقہ کا ہے یہ تمہاری طبیعت کیم چُھو پوچھے گا اور بنگلہ دیش والے پوچھیں گے کیمن آچھی اور پٹھان کہے گا پخیر راغلے اور فارسی والا کہے گا مزاجِ شماچہ طوراست اورعربی والا کہے گا کَیْفَ حَالُکَ لیکن یہ سب ایک قوم ہیں۔ معلوم ہوا کہ قومیت زبانوں سے نہیں بنتی، معلوم ہوا کہ قومیت رنگ و روغن اور الوان والسنہ کے اختلاف سے نہیں بنتی۔ یہ قومیت یُّحِبُّہُمۡ وَ یُحِبُّوۡنَہٗ سے بنتی ہے، اللہ کے عاشقوں سے بنتی ہے جن سے اللہ محبت کرتا ہے اور جو اللہ سے محبت کرتےہیں لہٰذا پورے عالم میں جو بھی اللہ کا عاشق ہوگا وہ ہماری قوم ہے اور جوان کا عاشق نہیں وہ ہمارا نہیں، وہ ہماری قوم کا نہیں اگرچہ ہمارے وطن کا ہو، اگرچہ ہمارا قریبی رشتہ دار کیوں نہ ہو، ہماراخون، ہماری زبان، ہمارا صوبہ، ہمارا علاقہ، ہمارا ملک کیوں نہ ہو لیکن وہ ہماری قوم کا نہیں ہے کیوں کہ وہ اللہ کا عاشق نہیں ہے، یُحِبُّھُمْ وَیُحِبُّوْنَہٗ کا فرد نہیں ہے۔ ہماری قوم اللہ کے عاشقوں سے بنتی ہے۔ سارے عالم کو اس قوم کی خبر نہیں، یہ وہ قوم ہے جس کو خالقِ کائنات نے نازل فرمایا ہے۔ اے روس و امریکا! تم کیا جانو کہ قوم کیا چیز ہے؟ پیدا کرنے والا جانتا ہے۔ جس نے ہم سب کو پیدا کیا اس کی بنائی ہوئی قومیت معتبر ہے یا تمہاری بنائی ہوئی۔ تمہاری قومیت تو رنگ و نسل ملک و قوم اور زبانوں کے اختلاف سے بنتی ہے جس کا نتیجہ نفرت و عداوت ہے اور عاشقانِ خُدا کی قوم کی امتیازی شان یُّحِبُّہُمۡ وَ یُحِبُّوۡنَہٗ ہے کہ اللہ ان سے محبت کرتا ہے اور وہ اللہ سے محبت کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ کے عاشقوں میں کبھی لڑائی نہیں ہوتی۔ ایک عاشق دوسرے عاشق سے مل کر مست ہوجاتا ہے ؎ یوں تو ہوتی ہے رقابت لازماً عُشَّاق میں عشقِ مولیٰ ہے مگر اس تہمتِ بد سے بری کیوں کہ ایک قوم ہونے کے احساس سے محبت میں خود بخود اضافہ ہوجاتاہے۔ ہر آدمی کو اپنی قوم سے محبت ہوتی ہے ۔ اس آیت کا نزول سارے عالم کے عشاق میں اضافۂ محبت کا