درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
کو اللہ والوں کی غلامی کرنے میں حُبِّ جاہ مانع ہے کہ اس راستے میں توچھوٹا بننا پڑے گا، کسی کو اپنا بڑا بنانا پڑے گا لہٰذا حبِّ جاہ مانع ہے کہ میں بڑا بنا رہوں، لوگ مجھے سلام کریں حالاں کہ اگر یہ اپنے آپ کو اللہ والوں کے سامنے مٹادیتے تو مخلوق بھی ان کو دل سے چاہتی، مخلوق کے دل میں اللہ ان کی عزت ڈال دیتا۔ تو یُحِبُّھُمْ وَیُحِبُّوْنَہٗ میں اللہ تعالیٰ نے بتادیا کہ جو مجھ سے محبت کرتے ہیں ناز نہ کریں کیوں کہ یہ میری ہی محبت کا فیضان ہے اور اہل اللہ چوں کہ مظہر صفاتِ حق ہوئے ہیں، مُتَخَلِّقٌ بِاَخْلَاقِ اللہِ ہوتے ہیں، واسطۂ ظہورِ رحمت ہوتے ہیں لہٰذا پہلے وہ اللہ کے بندوں سے محبت کرتے ہیں جس کے فیض سے مریدین ان کے ساتھ محبت کرتے ہیں۔ ایک شخص نے اپنے شیخ سے کہا کہ مجھے آپ سے بہت محبت ہے۔ شیخ نے کہا کہ یہ میری ہی محبت کا فیض ہے۔ اس نے کہا کہ حضرت! میں آپ کو زیادہ چاہتا ہوں تو فرمایا اچھا ! اور حضرت نے اپنی توجہ ہٹالی۔ پھر چھ مہینے تک وہ شخص نہیں آیا جب کہ روزانہ آتا تھا۔ پھر شیخ نے توجہ ڈالی اور محبت سے اُس کو یاد کیا تو پھر آگئے تو فرمایا کہ آپ کی محبت کہاں گئی، چھ مہینے کہاں رہے؟ وہ مرید نادم ہوا اور عرض کیا کہ حضرت! یقین آگیا کہ میری محبت آپ ہی کی محبت کا فیضان ہے ؎ وہی چاہتے ہیں میں کیا چاہتا ہوں اور یہ آیت مرتدین کے مقابلے میں ہے کہ یہ مرتدبے وفا ہیں ان میں محبت نہیں ہے اب ان کے مقابلے میں فَسَوۡفَ یَاۡتِی اللہُ بِقَوۡمٍ میں ایک قوم لاؤں گا یُّحِبُّہُمۡ وَیُحِبُّوۡنَہٗ یہ وہ قوم ہے جس سے میں محبت کروں گا اور جو مجھ سے محبت کرے گی ۔ معلوم ہوا کہ عاشقوں کا وجود اللہ تعالیٰ کی طرف سے فَسَوۡفَ یَاۡتِی کا ظہور ہے جس کا سلسلہ قیامت تک رہے گا کیوں کہ اِتْیَان میں سَوْفَ ہے مگر اس کا تسلسل منقطع نہیں ہے لہٰذا جو اپنے شیخ کا عاشق ہو تو سمجھ لو کہ یہ فَسَوۡفَ یَاۡتِی اللہُ بِقَوۡمٍ کا ایک فرد ہے۔ اس لیے بِقَوۡمٍ نازل فرمایا بِاَقْوَامٍ نازل نہیں فرمایا کہ ہم بہت سی قومیں نازل کریں گے۔ مُفْرَد نازل فرماکر بتادیا کہ سارے عالم کے عاشق ایک ہی قوم ہیں لہٰذا ہم سب