درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
نمک کو چکھنا یہ آپ کی ناراضگی کا سبب ہے اسی لیے ہم آپ کی ناخوشی سے بچنا چاہتے ہیں، ہم ایسی خوشیوں پر لعنت بھیجتے ہیں ؎ ہم ایسی لذّتوں کو قابلِ لعنت سمجھتے ہیں کہ جن سے رب مِرا اے دوستو ناراض ہوتا ہے اللہ کی ناراضگی سے بچنے کے غم میں جان دینا ہماری سعادت ہے۔ ہم اللہ پر جان دینے ہی کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔ اس پر میرے دو شعر ہیں ؎ ہے روحِ بندگی بس اُن کی مرضی پر فِدا ہونا یہی مقصودِ ہستی ہے یہی منشائے عالم ہے خوشی پر ان کی جینا اور مرنا ہی محبت ہے نہ کچھ پروائے بدنامی نہ کچھ پروائے عالم ہے زیادہ سے زیادہ حسینوں کو نہ دیکھنے سے دل کو تکلیف ہوگی اور اگر دل کہے کہ حسینوں کو نہ دیکھ کر مجھے تم تکلیف دیتے ہو تو دل سے کہہ دو کہ اے دل! تیری کیا قیمت ہے ہم تو جان دینے کے لیے تیار بیٹھے ہیں ؎ نہ چھیڑ اے نکہتِ بادِ بہاری راہ لگ اپنی تجھے اٹھ کھیلیاں سوجھی ہیں ہم بے زار بیٹھے ہیں یہ شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃاللہ علیہ سنایا کرتے تھے۔ ان کی باتیں یاد آتی ہیں۔ حضرت والا کی یادمیں احقر کا شعر ہے ؎ لُطفِ تو چوں یاد می آید مرا بوئے تو جانم بجوید درسرا جب آپ کا لطف وکرم مجھے یاد آتا ہے تو میری جان دیوانہ وار آپ کو اس عالم میں تلاش کرتی ہے۔ صِدّیق کی تین تعریفیں تو آپ نے سُن لیں اور چوتھی تعریف اللہ تعالیٰ نے