درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
اور صِدّیقین کی دوسری تعریف ہےاَلَّذِیْ لَا یَتَغَیَّرُ بَاطِنُہٗ مِنْ ظَاہِرِہٖ جس کا باطن ظاہری حالات سے متأثر نہ ہو ؎ جہاں جاتے ہیں ہم تیرا فسانہ چھیڑ دیتے ہیں کوئی محفل ہو تیرا رنگِ محفل دیکھ لیتے ہیں اللہ کا شکر ہے لندن، اٹلانٹا، شکاگو، ڈیٹرائٹ، بفیلو، ٹورنٹو اور ایڈمنٹن جہاں بھی اخؔتر گیا الحمدللہ! بزرگوں کی دعاؤں کے صدقے میں یہی حال تھا جو آج یہاں پارہے ہو۔ ہر لمحۂ حیات اللہ تعالیٰ پر فدا کرنے کی درخواست اور توفیق مانگتا ہوں اپنے لیے بھی اپنے بچوں کے لیے بھی اور دوستوں کے لیے بھی اور ایک لمحۂ حیات بھی اپنے مالک کو ناراض کرکے حرام خوشیوں کی اِسْتِیْرَاد اور درآمدات پر سیل (Seal) کرنا چاہتا ہوں، یعنی سخت پابندی لگانا چاہتا ہوں، اور اسی محنت کے لیے میری سارے عالم میں اس وقت گردش اور سفر ہے۔ اورصِدّیق کی تیسری تعریف ہے اَلَّذِیْ یَبْذُ لُ الْکَوْنَیْنِ فِیْ رِضَا مَحْبُوْبِہٖ؎ صدیق وہ ہے جو دونوں جہاں اللہ پر فدا کردے۔ دنیا فداکرنا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن آخرت کیسے فدا کریں؟ یعنی جنت کے لالچ میں نیک عمل مت کرو اللہ کی خوشی کے لیے کرو اور جنت کو ثانوی درجہ میں رکھو۔ دلیل اس کی ہے۔ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ رِضَاکَ وَالْجَنَّۃَ سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا جنت کو مؤخر کرنا دلیل ہے کہ اے اللہ کے عاشقو! پہلے اللہ کو خوش کرنے کے لیے روزہ نماز کرو، جنت کو ثانوی درجہ میں رکھو اور گُناہ جب چھوڑو تو پہلے اللہ کی ناراضگی کے خوف سے چھوڑو اور اس کی دلیل ہےوَاَعُوْذُبِکَ مِنْ سَخَطِکَ ؎ اے خُدا! پہلے میں تیری ناخوشی سے پناہ چاہتا ہوں پھر دوزخ سے۔ اور جہنم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثانوی درجہ میں کردیا کیوں کہ اے اللہ! تیرا ناراض ہونا جہنم سے کم نہیں۔ اس دُعا میں اُمّت کو آپ نے تعلیم دے دی کہ اے اللہ! آپ کو ناخوش کرنا، گُناہ کرکے حرام خوشی لانا اور حسینوں کے حرام ------------------------------