درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
پھر دوبارہ توبہ کرلو اور پھر عزم کرو کہ آیندہ کبھی توبہ نہ توڑوں گا، کبھی یہ گُناہ نہ کروں گا۔ تو میں نے گزارش کی کہ قلب میں اللہ تعالیٰ کی محبت کا دریائے لازوال و غیر محدود حاصل کرنے کا یعنی منتہائے اولیائے صِدیقین تک پہنچنے کا راستہ یہ ہے کہ حواسِ خمسہ کے راستوں سے حرام لذّت کا ایک ذرّہ داخل نہ ہونے دو اور ارادہ کرلو کہ اولیائے صِدّیقین کی آخری سرحد تک پہنچ کر مریں گے اور دُعا بھی کرو کہ اے اللہ! ہم سب کو اولیائے صِدّیقین کی خطِ انتہا تک پہنچادے، ہم کو بھی، ہمارے بال بچوں کو بھی، ہمارے احباب حاضرین اور غائبین کو بھی۔ اب سوال یہ ہوتا ہے کہ اولیائے صِدّیقین کو ن ہیں؟ تو علّامہ آلوسی نے صِدّیقین کی تین تعریف کی ہے(۱)اَلَّذِیْ لَایُخَالِفُ قَالُہٗ حَالَہٗجس کا قول اور حال ایک ہو یعنی دل و زبان ایک ہو جِس پر میرا ایک شعر ہے جو لندن میں وارد ہوا جب ایک عالم صاحب نے کہا کہ تمہاری تقریر میں زبردست درد محسوس ہوا تو میں نے کہا ؎ اس طرح دردِ دِل بھی تھا میرے بیاں کے ساتھ جیسے کہ میرا دِل بھی تھا میری زباں کے ساتھ ایک مُلک والوں نے کہا تمہاری تقریرمیں بڑی مٹھاس تھی تو میں نے کہا ؎ اس درجہ حلاوت ہے مِرے طرزِ بیاں میں خود میری زباں اپنی زباں چوس رہی ہَے آپ بتائیے اگر کوئی سوئیوں میں زیادہ شکر ڈال دے تو زبان لپٹ لپٹ جاتی ہے کہ نہیں؟ مٹھاس سے آدمی اپنی زبان خود چوسنے لگتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے میرے بزرگوں کے صدقے میں میرے کلام میں ایسی حلاوت عطا فرمائی ہے کہ میں خود مست ہوجاتا ہوں اور یہ میرا کمال نہیں، محض حق تعالیٰ کی عطا ہے، بزرگوں کی دُعاؤں کا صدقہ ہے۔ پس صِدّیق کی پہلی تعریف یہ ہے جس کا قول و حال ایک ہو، جس کا دل اس کی زبان کے ساتھ ہو یعنی زبان اس کے دل کی ترجمان ہو۔ اس کے قول و حال اور دل اور زبان میں فاصلے نہ ہوں۔