درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
سانس بھی مجھ کو ناراض نہیں کرتا اور میری ناخوشی کے راستے سے اپنے دل میں ایک اعشاریہ خوشی داخل نہیں ہونے دیتا، زبردست پاسبانی رکھتا ہے، خونِ تمنا کرتا ہے اور زخمِ حسرت کھاتا ہے تو ایسے قلب پر تجلّیاتِ الٰہیہ وافرہ متواترہ بازغہ نازل ہوتی ہیں۔ وافرہ میں کمیت ہے اور بازغہ میں کیفیت ہے یعنی نہایت خاص اور قوی تجلی اور متواترہ یعنی تسلسل ہوتا ہے اور یہ تسلسل کیوں ہے؟ کیوں کہ اس کا مُجاہدہ مسلسل ہے، اس لیے تجلّیات بھی مسلسل نازل ہوتی ہیں۔ اسی لیے حدیثِ پاک میں ہے اِتَّقِ الْمَحَارِمَ تَکُنْ اَعْبَدَالنَّاسِ؎ تم حرام سے بچ جاؤ سب سے بڑے عبادت گزار ہوجاؤ گے کیوں کہ عابدین کی عبادت ونقطے محدودیہ ہے، وہ اللہ تعالیٰ کو خوش کرنے کی عبادت میں ایک محدود وقت تک ہی رہ سکتے ہیں مثلاً نوافل، ذکر وتلاوت ایک محدود وقت تک ہی کرسکتے ہیں لیکن جو شخص تقویٰ سے رہتا ہے، گُناہ سے بچتا ہے وہ ہر وقت عبادت میں ہے۔ اس کا ہر منٹ، ہر سیکنڈ، ہر سانس اللہ تعالیٰ کو ناراض نہ کرنے کی عبادت میں مشغول ہے، اس لیے متقی چوبیس گھنٹہ کا عبادت گزار ہے کیوں کہ چوبیس گھنٹے وہ اللہ کو ناراض نہ کرنے کی عبادت میں ہے۔ قلباً و قالباً و عیناً ایک لمحہ بھی اللہ کو ناراض نہیں کرتا اسی لیے اس حدیث پاک میں متقی کو سب سے بڑا عبادت گزار فرمایا گیا اور اگر کبھی خطا ہوجائے تو جب تک توبہ و استغفار سے، اشکبار آنکھوں سے اللہ کو راضی نہیں کرلیتا اس کو چین نہیں آتا۔ حضرت حکیم الامّت تھانوی رحمۃُاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: متقی رہنا اتنا ہی آسان ہے جتنا باوضو رہنا کہ وضو اگر ٹوٹ جائے تو دوبارہ وضو کرلو۔ اسی طرح تقویٰ اگر کبھی ٹوٹ جائے تو توبہ کرکے دوبارہ متقی ہوجاؤ۔ بس شرط یہی ہے کہ توبہ کرتے وقت توبہ توڑنے کا ارادہ نہ ہو، پکا ارادہ ہو کہ اب یہ گُناہ کبھی نہیں کروں گا۔ اگر وسوسہ آئے کہ تو پھر یہ گُناہ کرے گا تو وسوسہ کا اعتبار نہیں۔ وسوسۂ شکستِ توبہ عزمِ شکستِ توبہ نہیں ہے۔ اس کے باوجود بالفرض اگر آیندہ کبھی نفس سے مغلوب ہوکر توبہ ٹوٹ گئی تو اس سے پہلی توبہ باطل نہیں ہوئی وہ ان شاء اللہ! قبول ہے۔ ------------------------------