درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
اور احقر کا شعر ہے ؎ آکر قضا باہوش کو بے ہوش کر گئی ہنگامۂ حیات کو خاموش کر گئی مولانا رومی فرماتے ہیں ؎ آں زماں یک چاہ شورے اندروں بہ زصد جیجونِ شیریں از بروں پس اگر یہ شخص باصِرہ، شامّہ، ذائقہ، سامِعہ اور لامِسہ کے دریاؤں سے باطن میں درآمد ہونے والی لذّاتِ فانیہ میں بالکلیہ غرق نہ ہوتا اورزندگی میں اللہ کی محبت و طاعت کا کوئی کھاری چشمہ ہی اپنے دل میں کھود لیتا یعنی فرماں برداری و طاعت میں تھوڑی سی بھی کوشش ہوتی تو یہ بے ہودہ اور ذرّہ بھر کوشش جس کی مثال بوجہ نقصانِ عبدیت کھاری چشمہ کی سی ہے، تو طاعت کا یہ کھاری چشمہ بھی اس وقت لذّاتِ فانیہ کے ان سینکڑوں میٹھے دریاؤں سے بہتر ہوتا جو حواسِ خمسہ کے ذریعہ باہر سے جسم کے قلعے کے اندر داخل ہورہے تھے۔ پس جب اللہ کی محبت کا ایک کھاری چشمہ بھی فائدہ سے خالی نہیں تو ہم کیوں نہ اس زندگی ہی میں اللہ تعالیٰ کی محبت کا غیر محدود اور لازوال دریا اپنے دل میں حاصل کرلیں اور کیوں نہ منتہائے اولیائے صدّیقین تک پہنچنے کی اللہ سے فریاد کریں کیوں کہ یہ زندگی ایک ہی بار ملی ہے، دوبارہ نہیں ملے گی۔ جب دوبارہ زندگی نہیں ملے گی تو اللہ تعالیٰ کی دوستی کے مُنتہائے مقام تک پہنچنے کے لیے کیوں نہ جان لڑادیں۔ اس کا کیا طریقہ ہے؟ حواسِ خمسہ کے جو پانچ راستے اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائے ہیں ان سے صرف حلال لذّتیں درآمد کریں، حرام لذّتوں کا ایک ذرّہ قلب میں داخل نہ ہونے دیں۔ پس اگر کسی نے اپنے پانچوں حواس پر تقویٰ کی پاسبانی مقرر کردی اور ایک لمحہ بھی اللہ تعالیٰ کو ناراض کرکے حرام لذّت کو دل میں نہیں آنے دیتا تو اس کے قلب میں نورِ تقویٰ سے اور غمِ مُجاہدہ سے تجلّیات کا پیہم نزول ہوتا رہتا ہے۔ اس علمِ عظیم کو اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ کے ساتھ احقر کو عطا فرمایا کہ ایسے قلب پر جو مُجاہدہ کرکے میرا غم اُٹھاتا ہے، ایک لمحہ اور ایک