درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
پانچ دریاؤں سے لذّتیں درآمد ہورہی ہیں۔ ایک دریائے باصِرہ ہے یعنی آنکھوں سے دیکھ کر لذّت درآمد ہورہی ہے، ایک دریائے سامِعہ ہے یعنی کانوں سے سُن کر دل میں لذّت درآمد کی جارہی ہے ایک دریائے ذایقہ ہے یعنی زبان سے چکھ کر دل مزہ لے رہا ہے، ایک دریائے شامّہ ہے یعنی ناک سے سونگھ کر لذّت درآمد ہورہی ہے اور ایک دریائے لامِسہ ہے یعنی چھوکر باطن میں لذّت داخل ہورہی ہے لیکن جب موت آتی ہے تو آنکھ، کان، ناک اور زبان وغیرہ کے راستوں کے ذریعے درآمد ہونے والی لذّتوں کے راستوں کو کاٹ دیتی ہے۔ مولانا فرماتے ہیں ؎ قاطعُ الاسباب لشکر ہائے مرگ ہمچو دے آیدبقطعِ شاخ و برگ ایک دن موت کا لشکر تمام اسبابِ لذّت کو قطع کرنے کے لیے آپہنچتا ہے اور باغ زندگی کے شاخ و برگ کاٹ کر بہارِ ہستی کو خزاں میں تبدیل کردیتا ہے پس وہ محروم جان جو خارج سے درآمد ہونے والی لذات میں مُسْتَغْرَقْ تھی اور جس نے اللہ کو راضی کرکے اپنے باطن میںتعلق مع اللہ کی بہارِ لازوال حاصل نہیں کی موت کے وقت اس کی تمام بہاریں ختم ہوجاتی ہیں۔ اس وقت لذّاتِ فانیہ کی کوئی بہار اس کو نفع نہیں پہنچاسکتی۔ حسین سے حسین صورت جس کو دیکھ کر حرام لذّت حاصل کرتا تھا سامنے کھڑی ہے، لیکن اب آنکھیں دیکھنے سے قاصر ہیں، زبان پر شامی کباب رکھا ہوا ہے لیکن زبان لذّت کے ادراک سے قاصر ہے، بچے کان میں ابّا ابّا کہہ رہے ہیں لیکن کان اب سُننے سے مجبور ہیں، ناک عطر عود، عنبر و شمامہ کی خوشبو سونگھنے سے معذور ہے۔ لاکھوں نوٹ جن کو گِن کر مزہ لیا کرتا تھا ہاتھ پر رکھے ہوئے ہیں، لیکن قوّتِ لامِسہ مفلوج ہے۔ جسم کے قلعے میں حواسِ خمسہ کے راستوں سے لذّتوں کے جو دریا آرہے تھے موت نے ان کو کاٹ دیا لہٰذا جسم اب ادراکِ لذّت سے قاصر ہے۔ اکبر الٰہ آبادی کا شعر ہے ؎ قضا کے سامنے بے کار ہوتے ہیں حواس اکبر کھلی ہوتی ہیں گو آنکھیں مگر بینا نہیں ہوتیں