درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
ارشاد فرمایا کہ مولانا رومی فرماتے ہیں ؎ راہِ لذّت اَزدروں داں نزبروں اَبْلَہی داں جستنِ قصر و حصوں مولانا رومی فرماتے ہیں کہ لذّت کا راستہ اندر سے ہے نہ کہ خارج سے یعنی لذّت کا مداراسبابِ خارجیہ پر نہیں ہے بلکہ قلب پر ہے۔ اگر قلب میں سکون ہے تو لذّت اور سکون کے خارجی اسباب نہ بھی ہوں تو بھی دل مست رہے گا، اس کے سکون اور مزے کو کوئی چھین نہیں سکتا اور دل میں بے چینی ہے تو اسبابِ سکون، اسبابِ لذّت اور اسبابِ عیش میں وہ بے چین رہے گا۔ اس لیے مولانا فرماتے ہیں کہ سکون کے لیے قلعہ اور محل کے خارجی اسباب کو سہارا بنانا بے وقوفی ہے کیوں کہ خارجی اسباب سے اگر دل میں لذّت در آمد بھی ہوئی تو عارضی ہوگی۔ دیکھو پانچ راستے ہیں جن سے قلب میں لذّت آتی ہے دل باہر سے لذّت درآمد کرنے میں حو اس خمسہ کے ان پانچ راستوں کا محتاج ہے۔ اچھی آواز سے شعر سُنا تو کان سے سُن کر دل خوش ہوگیا۔ تو یہ لذّت کان کے راستے سے آئی۔ اسی طرح دیکھنے میں جو مزہ آیا یہ قوّتِ باصرہ سے آیا اور عمدہ عمدہ کھاکر جو مزہ آیا وہ قوتِ ذایقہ سے آیا، ناک سے عطر سونگھ لیا تو یہ مزہ قوّتِ شامّہ سے آیا۔ ہاتھ سے کوئی چیز چھو کے مزہ آیا تو یہ قوتِ لامسہ سے آیا۔ تو یہ ساری لذتیں جو قلب میں آتی ہیں قلب ان تمام لذّتوں کے لیے باصرہ، سامِعہ، شامّہ ، لامِسہ، ذایقہ کے ان پانچ راستوں کا محتاج ہے لیکن یہ سب مزہ قلب میں جمع ہوتا ہے لہٰذاقلب مَسْکَنِ مُسْتَوْرِدَاتِ ہے، گودام ہے یا اسٹاک ہاؤس کہہ لہو۔ لیکن مولانا رومی فرماتے ہیں کہ خارج سے لذتوں کو درآمد کرنے کی مثال اس قلعہ کی سی ہے جس میں باہر سے میٹھے پانی کی پانچ نہریں قلعے کے اندر آرہی ہوں اور اہلِ قلع ان کی لذّت سے مست ہوں، لیکن ایک دن جب دُشمن کی فوج آ پہنچی اور اس نے قلعے کا محاصرہ کرکے نہروں کے راستوں کو بند کردیا اس وقت اہلِ قلعہ پانی کے ایک ایک قطرے کو ترس کر مرجائیں گے۔ مولانا فرماتے ہیں کہ انسان کا جسم بھی ایک قلعہ ہے جس میں حواسِ خمسہ کے