درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
ہیں لہٰذا جو اللہ والوں کے پاس بیٹھتا ہے تو جذب کی کوئی تجلّی اس پر بھی پڑجاتی ہے اور وہ ہمیشہ کے لیے سعید ہوجاتا ہے اور محبت کی پرانی چوٹ جو اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ فرماکر اللہ تعالیٰ نے لگائی تھی پھر اُبھر آتی ہے او ریہ اللہ کی محبت کا دردِ مستقل پاجاتا ہے۔ دونوں حدیثوں کے ارتباط سے جو علمِ عظیم اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا اس کی حلاوت سے دل مست ہورہا ہے۔ جامع صغیر کی روایت سے معلوم ہوا کہ اس دنیا کے شب و روز ز مانِ تجلّیاتِ جذب ہیں کہ ان ہی شب و روز میں جن کو وہ تجلّیات مل گئیں اس کے بعد کوئی شقی و بدبخت نہیں رہ سکتا۔ مندرجہ بالا حدیثِ پاک سے ان تجلیاتِ جذب، تجلّیاتِ مقربات اور نفحاتِ کرم کا زمانہ تو معلوم ہوگیا لیکن دل میں یہ سوال پیدا ہوتا تھا کہ یہ تجلیات کہاں ملتی ہیں؟ بُخاری شریف کی حدیث لَایَشْقٰی جَلِیْسُھُمْ سے اللہ تعالیٰ نے فوراً دل میں یہ بات عطا فرمائی کہ اہل اللہ کی مجالس ہی وہ مکان ہیں جہاں ان تجلیات کا نزول ہوتا ہے جن کو پانے کے بعد شقاوت سعادت سے اور بدبختی نیک بختی سے تبدیل ہوجاتی ہے۔ الحمد للہ تعالیٰ کہ تجلیاتِ جذب کے زمان و مکان کا تعین مدلل بالحدیث ہوگیا۔ فَالْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ اللہ تعالیٰ اپنے کرم سے عجیب و غریب علوم عطا فرمارہے ہیں اور یہ آپ حضرات ہی کی برکات ہیں، اس مہینے کی برکات ہیں اور میرے ان بزرگوں کی برکات جن کے ساتھ ایک عمر اخؔتر نے بسر کی اور ایسی بسر کی کہ جنگل میں دس سال تک فجر سے لے کر ایک بجے تک ناشتہ نہیں کیا کیوں کہ میرے شیخ بھی ناشتہ نہیں کرتے تھے تو میں کیسے کرتا۔ مجھے شرم آتی تھی کہ شیخ تو ناشتہ نہ کریں اور گھر سے میرے لیے ناشتہ آئے۔ میرا ناشتہ اشراق وچاشت اور ذکرو تلاوت سے ہوتا تھا۔ دوپہر ایک بجے تک ایک دانہ اُڑ کر پیٹ میں نہ جاتا تھا۔ خوب کڑا کے کی بھوک لگتی تھی لیکن کیا بتاؤں کہ شیخ کی صحبت میں کیا لطف آتا تھا کہ آج تک وہ مزہ دل میں محسوس ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قبول فرمائیں۔ کیا کہیں عجیب و غریب معاملہ تھا وہاں نہ بیتُ الخلاء تھا نہ غسل خانہ اور جنگل میں استنجا کے لیے جانا اور تقریباً ایک میل سے شیخ کے لیے پانی لانا کیوں کہ حضرت کنویں سے وضو نہیں کرتے