درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
تھے۔ فرماتے تھے کہ ہندو یہاں پانی بھرتے ہیں اور کنویں میں اپنا ڈول ڈالتے ہیں اگرچہ اس سے وضو کرنا جائز ہے لیکن میرا دل نہیں چاہتا لہٰذا گرمیوں کی دھوپ میں روزانہ ایک میل دور ندی سے حضرت کے لیے پانی لاتا تھا۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے اُمید ہے کہ ؎ آہ جائے گی نہ میری رائیگاں تجھ سے ہے فریاد اے ربِّ جہاں اللہ والوں کی خدمت اللہ تعالیٰ رائیگاں نہیں کرتا، اپنے پیاروں کی خدمت اور ان کی محبت خدائے تعالیٰ ضایع نہیں فرماتے۔ حضرت مولانا شاہ ابرارالحق صاحب دامت برکاتہم جو اب میرے مُرشد ہیں جدہ میں مجھ سے فرمایا کہ سارے عالم میں جو تم کو پوچھا جارہا ہے اور تم سے جو دین کا کام لیا جارہا ہے یہ سب حضرت شاہ عبدالغنی پھولپوری رحمۃُاللہ علیہ کی خدمت کا صدقہ ہے اور اپنے سگے بھائی اسرار الحق صاحب سے جو حیدرآباد سندھ میں رہتے تھے فرمایا کہ میں نے جو کتابوں میں پڑھا تھا کہ لوگ اپنے شیخ پر پہلے زمانے میں کس طرح فدا ہوتے تھے اور کتنی مشقت اور محبت سے ان کی خدمات میں سرگرم رہتے تھے وہ کتابوں میں تو پڑھا تھا، میں نے روئے زمین پر نہیں دیکھا تھا مگر اختؔر کی زندگی میں وہ کتابوں کا پڑھا ہوا مجھے نظر آگیا، یہ ان کے بھائی نے مجھے بتایا کہ مولانا ابرارالحق صاحب یوں فرمارہے تھے۔ اس کی مجھے اتنی خوشی ہے کہ اگر سلطنتِ ہفت اقلیم دے دوں تو حق ادا نہیں ہوسکتا۔ ایک دفعہ میں گیارہ بجے رات کو پھولپور آیا۔ معلوم ہوا کہ حضرت اور مولانا ابرارالحق صاحب اعظم گڑھ چلے گئے جو وہاں سے تیس چالیس میل ہے۔ میں وہاں سویا نہیں اگرچہ سونے کی جگہ تھی۔ سیدھا اسٹیشن آگیا اور پلیٹ فارم پر جاگتا رہا۔ دو تین بجے کے قریب دوسری ریل جب آئی تو اس سے میں تہجّد کے وقت اعظم گڑھ پہنچ گیا۔ حضرت سورہے تھے۔ میرے شیخ کا معمول تھا کہ تھوڑی تھوڑی دیر پر اللہ اللہ اللہ اللہ کرتے۔ آدھا گھنٹہ یا بیس منٹ کے بعد آنکھ کھل جاتی تھی۔ ایسی نیند نہیں تھی کہ جس میں تسلسل ہو۔ ہر آدھا گھنٹہ بعد جب آنکھ کھل گئی تو اللہ اللہ اللہ کہہ کے پھر سوجاتے