درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
نافِ مابر مہرِ خود ببریدہ اند عشق خود درجانِ ماکاریدہ اند ارشاد فرمایا کہ جب بچّہ پیدا ہوتا ہے تو بچہ کی ناف میں ایک رگ ہوتی ہے جو شکمِ مادر سے جڑی رہتی ہے جسے نال کہتے ہیں، دائی اس نال کو کاٹتی ہے جو دلیل ہے کہ اس کا رابطہ شکمِ مادر سے کٹ گیا اور اب یہ دنیا میں آگیا اور اس کو ایک الگ وجود عطا ہوگیا۔ اسی کو مولانا فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی محبت کی شرط پر ہماری نال یعنی ناف کاٹی ہے۔ برمہرِ خود اپنی محبت کی شرط پر ’’بر‘‘معنیٰ میں یہاں شرط کے ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے محبت کی شرط پر ہم کو وجود بخشا ہے کہ جا تو ر ہے ہو مگر میری محبت کے پابند رہنا، اس شرط پر ہم تم کو دنیا میں بھیج رہے ہیں کہ تم غیروں کے نہ بننا، نہ نفس کے بننا، نہ شیطان کے بننا، ہمارے ہو تو ہمارے بن کر رہنا ؎ نہیں ہُوں کسی کو تو کیوں ہُوں کسی کا اُن ہی کا اُن ہی کا ہوا جارہا ہوں میرے شیخ یہ شعر پڑھا کرتے تھے ؎ نہ کبھی تھے بادہ پرست ہم نہ ہمیں یہ ذوقِ شراب ہے لبِ یار چو سے تھے خواب میں وہی ذوقِ مستیِ خواب ہے پھر حضرت اس کے معنیٰ بتاتے تھے کہ جب اللہ نے ارواح کو اپنی تجلّی دکھائی اور سوال فرمایا اَلَسۡتُ بِرَبِّکُمۡ؎ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں تو اس میں اپنی شانِ ربوبیت کی تجلی دکھادی اور اپنی محبت کی چوٹ لگادی۔ وہی چوٹ لگی ہوئی ہے کہ آج اللہ کا نام سن کر کافر کا بھی دل ہل جاتا ہے اور کتنا ہی فاسق ہو مگر اللہ کا نام سن کر وہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ آہ! جیسے ہم نے کبھی اس نام کو سُنا ہے۔ اپنی چوٹ لگاکر ہمیں دنیا میں بھیجا ہے، ان کی محبت ہماری جانوں کا فطری ذوق ہے۔ اسی کو خواجہ صاحب فرماتے ہیں ؎ ------------------------------