درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
جس حسین لڑکے کو عاشقانِ مجاز خدائے حسن کہہ رہے تھے اور اس کی خوشامد و چاپلوسی کررہے تھے اور اس پر مال خرچ کرکے اسے دامِ شہوت و فسق میں لے رہے تھے یہی لڑکا اسی بدنامی معشوقیت کے ساتھ جب کچھ دن بعد داڑھی مونچھ والا ہوجاتا ہے تو پھر شیطان بھی اس کی خیریت نہیں پوچھتا اور اس کے عشاق راہِ فرار اختیار کرتے ہیں اور اگر کہیں اس کو دیکھتے ہیں تو کھسک جاتے ہیں۔ چوں رود نور وشود پیدا دُخاں بفسرد عشقِ مجازی آں زماں مولانا فرماتے ہیں کہ داڑھی مونچھ آنے سے جب چہرے پر دھواں ظاہر ہوتا ہے اور چہرے کا حُسن غائب ہوجاتا ہے اس وقت عشق مجازی کا بازار ٹھنڈا پڑجاتا ہے اور مجاز کی گرم بازاری عشق ایسی سرد پڑتی ہے کہ پھر کبھی گرم نہیں ہوتی۔ اس لیے مولانا رومی نصیحت فرماتے ہیں ؎ عشق بامردہ نباشد پائیدار عشق را باحیّ و باقیّوم دار مرنے والوں کے ساتھ عشق پائیدار نہیں ہوتا کیوں کہ ایک دن یا تو وہ مرجائیں گے یا مرنے سے پہلے ہی ان کا حُسن ایسا زائل ہوگا کہ ان کی طرف دیکھنے کو بھی دل نہ چاہے گا۔ لہٰذا محبت صرف اس زندہ حقیقی سے کرو جو ہمیشہ سے زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا اور جس کی حیات کے فیضان سے ساری کائنات کی حیات قائم ہے اور جو قیوم بھی ہے کہ خود اپنی ذات سے قائم ہے کسی کا محتاج نہیں اور ساری کائنات کو اپنی قدرتِ قاہرہ سے سنبھالے ہوئے ہے۔ پس صرف وہ حی و قیوم ہی محبت کے قابل ہے کیوں کہ مرنے والے جب ایک دن خود مرجائیں گے تو یہ دوسرے کو کیسے حیات دے سکتے ہیں اور جو خود کو نہیں سنبھال سکتے وہ دوسروں کو کیا سنبھالیں گے۔