درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
رنگینیاں بھی چلی جاتی ہیں اور ان کے عشاق بھی ہاتھ مل کر رہ جاتے ہیں کہ ہائے ان کو جو بریانیاں ، مٹھائیاں ، خوبانیاں او ررس ملائیاں کھلائی تھیں سب بے کار گئیں۔ اس کے برعکس اہلِ تقویٰ بڈھے بھی ہوجائیں گے مگر ان کے قلب کی مستیوں کو اللہ باقی رکھتا ہے کیوں کہ ان کی جوانی اللہ پر فدا ہوئی ہے، انہوں نے اپنی جوانی کو اللہ کے پاس جمع کردیا اور جو چیز اللہ کے پاس جمع ہوگئی وہ باقی ہوگئی۔ لہٰذا بڑھاپے میں بھی اہل تقویٰ کی روح پر عالم شباب طاری ہوتا ہے، ان کو ذکر میں ایسا مزہ آتا ہے کہ ساری کائنات کی لذّتیں اس کے سامنے ہیچ ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: مَا عِنۡدَکُمۡ یَنۡفَدُ وَ مَا عِنۡدَ اللہِ بَاقٍ؎ جو کچھ تمہارے پاس ہے فنا ہونے والا ہے اور جو اللہ کے پاس ہے وہ باقی رہنے والا ہے۔ لہٰذا جو تم نے اپنےنفس کی خواہش پر خرچ کردیا، زندگی کی جوانی کو اور کالے بالوں کو حسینوں کے گالوں پر فدا کردیا تو تم نے سب فنا کردیا۔ یہ سب مَا عِنۡدَکُمۡ یَنۡفَدُ ہوگیا، نہ کالے بال رہیں گے، نہ گورے گال رہیں گے ڈھونڈنے سے بھی نہیں پاؤ گے کہ جوانی کدھر گئی ۔ ایک بڈھا جھکا ہوا جارہا تھا۔ بڑھاپے میں کمر جُھک جاتی ہے تو کسی نوجوان نے شرارتًا کہا کہ بڑے میاں! جھکے جھکے جارہے ہو کیا ڈھونڈ رہے ہو؟ تو اس نے کہا کہ میں اپنی جوانی کو ڈھونڈ رہا ہوں۔ پس جو مرنے والوں کے ڈسٹمپروں پر مرتے ہیں اور خلاف پیغمبر زندگی گزارتے ہیں ان کا یہی حال ہے کہ ان کو نہ دنیا ملتی ہے نہ آخرت اور یہ شخص ولی اللہ تو ہو ہی نہیں سکتا کیوں کہ ولایت تقویٰ پر مبنی ہے اور معشوقوں سے دل لگانا فسق ہے اور فسق و تقویٰ جمع نہیں ہوسکتے یہ اجتماعِ ضدین ہے جو محال ہے۔ آگے مولانا فرماتے ہیں ؎ چوں بہ بدنامی برآید ریشِ او دیو راننگ آید اَزتفتیشِ دیو او ------------------------------