درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
اس پر بھی ایک واقعہ سُن لو جو میرے شیخ حضرت شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃُ اللہ علیہ نے سُنایا تھا کہ ڈاکیے سے ایک شخص کی لڑائی ہوگئی تو اس نے کیسے بدلہ لیا کہ جدھر سے وہ ڈاکیا گزرتا تھا تو وہ زور سےشور کرتا تھا کہ ہٹو سرکاری آدمی جارہا ہے اور خود بھی ایک طرف ہوجاتا تھا اور اگر کبھی اپنی موٹر سے جارہا ہوتا تو موٹر کو ایک کنارے کھڑا کرکے موٹر سے اترتا اور کھڑے ہوکر سیلوٹ مارتا کہ اَرے بھئی! دیکھو سرکاری ڈاک جارہی ہے، یہ سرکاری آدمی ہے اس کا خوب احترام کرو۔ ڈاکیا سمجھنے لگا کہ میں کوئی بہت بڑی چیز ہوں۔ ایک دن ایس پی جارہا تھا تو ڈاکیے نے اس سے بھی اکرام طلب کیا اور اس کی کار کے سامنے اپنی سائیکل کھڑی کرکے منہ چڑاکر بے ادبی سے بات کی کہ دیکھتے نہیں ہو سرکاری ڈاک جارہی ہے، میرا راستہ روکتے ہو۔ بس ایس پی نے وہ پٹائی کی کہ مزاج درست ہوگئے۔ تو بعض لوگ بہت زیادہ اکرام کرکے پٹواتے ہیں۔ اسی طرح اہلِ نفس معشوقوں کی تعریف اور خوشامد کرتے ہیں تاکہ ان کو چکر میں ڈال کر اپنا اُلّو سیدھا کریں۔ مولانا کامقصد صوفیا و سالکین کو تنبیہ کرنا ہے کہ اگر تم ان صورتوں اور شکلوں میں پڑے تو سمجھ لو لیلائے کائنات میں جو پھنسا وہ مولائے کائنات سے محروم ہوا اور پھر ان کا حُسن بھی باقی نہیں رہا۔ لہٰذا نہ دنیا ملی نہ آخرت ؎ نہ خُدا ہی ملا نہ وصالِ صنم نہ ادھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے مولانا رومی سمجھانے کے لیے ایک تمثیل پیش کرتے ہیں کہ ایک شخص نے دریا میں چاند کے عکس کو دیکھ کر سوچا کہ آج تو چاند پانی میں آگیا چلو اس کو پکڑلو کیوں کہ آسمان پر جانا تو مشکل تھا اب تو چاند زمین پر آگیا ہے کیوں نہ اس کو دبوچ لیں۔ جب وہ اندرگھسا تو پیر کے نیچے بالوجو ہلا تو پانی گدلا ہو اور عکس غائب ہوگیا اور اصلی چاند سے بھی محروم ہوگیا بلکہ چاند سے اور دور ہوگیا۔ مولانا نصیحت فرماتے ہیں کہ ان حسینوں سے نامحرموں سے دور رہو تو اللہ کو پالو گےورنہ جو عکس کے پیچھے دوڑے گا اصل سے بھی محروم ہوجائے گا اور معشوقوں کا حُسن جب زائل ہوجاتا ہے تو عالم شباب کی رعنائیاں، مستیاں اور