درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
لَا یَجُوْزُ النَّظَرُ مِنْ فَرْقِہٖ اِلٰی قَدَمِہٖ؎ یعنی امرد کا حکم مثل عورت کے ہے اس کو سر سے پاؤں تک دیکھنا حرام ہے لہٰذا ہم لوگ جتنا اللہ کا شکر کریں کم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سچے اللہ والوں سے ہمیں جوڑ دیا ورنہ نہ جانے کیا حال ہوتا۔ آہ! ایک بار حضرت حکیمُ الامّت مجددالملّت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے بھتیجے مولانا شبیر علی صاحب نے ایک لڑکے کو خانقاہ کے بالاخانے پر جہاں حضرت باوضو تفسیر بیان القرآن لکھ رہے تھے بھیج دیا۔ حضرت حکیمُ الامّت ایک لمحہ وہاں نہیں رُکے، فوراً نیچے آگئے اور فرمایا کہ مولوی شبیر علی!جس کے داڑھی مونچھ نہ ہو ایسے لڑکے کو میری تنہائی میں مت بھیجو، نفس کا کوئی بھروسہ نہیں اور فرمایا کہ جو لوگ مجھے حکیمُ الامّت اور مجدد الملّت سمجھتے ہیں وہ میرے اس عمل سے سبق حاصل کریں کہ جس کو وہ اپنا بڑا سمجھتے ہیں وہ جب اپنے نفس پر اعتماد نہیں کرتا اور اسبابِ گُناہ سے احتیاط کرتا ہے تو خود انہیں کتنی احتیاط کرنی چاہیے ؎ بھروسہ کچھ نہیں اس نفسِ امّارہ کا اے زاہد فرشتہ بھی یہ ہوجائے تو اس سے بدگماں رہنا ہمچو امرد کز خُدا نامش دہند تابداں سالوس در دامش کنند ارشاد فرمایا کہ مولانا رومی فرماتے ہیں کہ بعضے خبیث الطبع امردوں کو خُدائے حُسن کہتے ہیں کہ آپ تو حُسن کے دیوتا اور حُسن کے خدا معلوم ہوتے ہیں تاکہ اس تعریف اور چاپلوسی سے اس کو اپنے مکر و فریب کے جال میں پھنسالیں۔ یہ میں نہیں کہہ رہا ہوں، یہ مولانا روم ہیں جو آٹھ سو برس پہلے گزرے ہیں وہ صوفیوں کو سبق دے رہے ہیں کہ دیکھو نفس سے ہوشیار رہنا یہ کس طرح چاپلوسی اور تعریف کرتا ہے تاکہ وہ معشوق اس کے چکر میں آجائے۔ سالوس کے معنیٰ ہیں خوشامد اور تعریف کرنا کسی کو دھوکا دینے کے لیے۔ ------------------------------