درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
رنگِ طاعت رنگِ تقویٰ رنگِ دیں تا ابد باقی بود بر عابدیں اللہ کی طاعت و تقویٰ اور دین کا نور ارواحِ عابدین میں ہمیشہ قائم رہتا ہے۔ اس کے علاوہ ہر چیز فانی ہے کُلُّ شَیْءٍ مَاخَلَا اللہِ بَاطِلٗ حُسن بھی فانی ہے اور ان حسینوں کا عشق بھی فانی ہے لہٰذا مولانا فرماتے ہیں۔ عشق بامردہ نباشد پائیدار عشق را باحیّ و باقیوم دار ان مرنے والی لاشوں کا عشق پائیدار نہیں ہوتا اس لیے اس حی و قیوم سے محبت کرو جس کو فنا نہیں، مُردوں کا اور اس حی و قیوم کا عشق جمع نہیں ہوسکتا۔ اسی لیے ہمارے بزرگوں نے امارد سے سخت احتیاط کی ہے۔ نواب قیصر صاحب نے بتایا کہ ہم اور مولانا شاہ ابرارالحق صاحب دامت برکاتہم تھانہ بھون جاتے تھے اس وقت ہمارے داڑھی مونچھ نہیں آئی تھی تو ہم دونوں کو رات میں خانقاہ میں قیام کی اجازت نہ تھی یعنی جتنے لڑکے بے ریش ہوتے تھے تو ایسے لڑکوں کے لیے حضرت کا حُکم تھا اور حضرت کی طرف سے اعلان ہوتا تھا کہ جو لڑکے ےداڑھی والے نہیں ہیں جلدی سے خانقاہ خالی کردیں۔ ایک گھر خانقاہ کے قریب کرائے پر لیا گیا تھا جس میں ایسے سب لڑکے رکھے جاتے تھے اور ایک اللہ والے متقی بڑے میاں ان کے نگران ہوتے تھے جو مہتمم الاطفال تھے۔ یہ تھی ہمارے اکابر کی احتیاط۔ اس کے برعکس سُنّت و شریعت کے خلاف جو خانقاہیں ہیں وہ دراصل خانقاہ نہیں خواہ مخواہ ہیں اور ان کے شاہ صاحب شاہ صاحب نہیں سیاہ صاحب ہیں کہ بے ریش لڑکوں کے سر پر پٹے رکھوا کر اور آنکھوں میں کاجل لگواکر نعتیں سُنتے ہیں حالاں کہ ایسے لڑکوں کو دیکھنا اور ان سے نعتیں سُننا اسی طرح حرام ہے جس طرح کسی اجنبیہ عورت کو دیکھنا اور اس سے نعتیں یا عارفانہ کلام سُننا حرام ہے۔ علامہ شامی لکھتے ہیں اَلْاَمْرَدُ اَلْحَسَنُ الَّذِیْ طَرَّ شَارِبُہٗ وَلَمْ تَنْبُتْ لِحْیَتُہٗ فَحُکْمُہٗ کَحُکْمِ الْمَرْأَۃِ